تحریکِ عدم اعتماد: قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی، اپوزیشن کا شدید ردِ عمل

March 25, 2022

—فائل فوٹو

اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس کچھ ہی دیر بعد ملتوی کر دیا گیا، جس پر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسپیکر نے آج پھر بطور اسپیکر نہیں بلکہ بطور پی ٹی آئی کے ورکر قانون کو اپنے پاؤں تلے روند دیا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں مرحوم اراکینِ اسمبلی کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ معزز ممبر کے انتقال کے احترام میں ایجنڈا اگلے روز منتقل کیا جاتا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مزید کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر آئین و قانون کے مطابق کارروائی کروں گا، رکن کی وفات کے باعث روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج تک 24 بار اجلاس کسی بھی رکن کی وفات پر ملتوی ہوتا رہا ہے، ماضی میں ہوا ہے کہ رکنِ اسمبلی کی وفات پر ایجنڈا اگلے روز تک مؤخر ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس پیر 28 مارچ کی شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا۔

اپوزیشن کا احتجاج، شہباز شریف کو بولنے نہ دیا گیا

اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج اور شور شرابا کیا، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مائیک پر بولنے کی کوشش کی تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کو بولنے کی اجازت نہیں دی۔

بلاول اور شہباز شریف لفٹ میں پھنس گئے

قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کے صدر، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر آتے ہوئے لفٹ میں پھنس گئے۔

کچھ دیر لفٹ میں پھنسے رہنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف لفٹ سے نکل آئے۔

شہباز شریف سے بلاول کی چیمبر میں ملاقات

اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن لیڈر کے چیمبر پہنچ گئےجہاں انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کی اور اسپیکر کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک ٹیک اپ نہ کرنے پر مشاورت کی۔

اجلاس میں کون کون شریک ہوا؟

قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری، ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن کے صدر، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اراکینِ پارلیمنٹ نے شرکت کی۔

حکومتی اتحادی جی ڈی اے اور باپ کے ارکان فہمیدہ مرزا، غوث بخش مہر، خالد مگسی، عوامی جمہوری پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی اور دیگر ایوان میں موجود تھے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کی گیلری میں یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن موجود تھے۔

عمران خان زندہ باد کے نعرے

حکومتی ارکان نے عمران خان زندہ باد کے نعرے بلند کیے۔

قومی اسمبلی اجلاس کا ایجنڈا کیا تھا؟

قومی اسمبلی کے اجلاس کے 15 نکاتی ایجنڈے میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف شامل تحریکِ عدم اعتماد پر اپوزیشن کے 147 ارکان کے دستخط ہیں۔

ایجنڈے کے آئٹم نمبر 3 میں ایوان سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت لینا شامل ہے۔

ایجنڈے کے آئٹم نمبر 4 میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد شامل ہے۔

قرار داد کا متن

عدم اعتماد کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، انہیں عہدے سے برخاست کر دیا جائے۔

زرداری نے کیا کہا؟

پارلیمنٹ آمد کے موقع پر ایک صحافی نے سابق صدر آصف علی زرداری سے سوال کیا کہ ملکی سیاست کا اہم موڑ آ گیا ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟

سابق صدر نے جواب دیا کہ میں کہتا ہوں کہ ان شاء اللّٰہ بہتر ہو گا۔

ہم سمجھتے ہیں آج ہماری فتح کا دن ہے: بلاول

پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آج ہماری فتح کا دن ہے۔

’’جیت عوام کی، شکست سلیکٹڈ کی ہو گی‘‘

انہوں نے کہا کہ ہماری تیاری مکمل ہے، 3 سال کی محنت کے بعد آج آرڈر آف ڈے پر عدم اعتماد کی تحریک آ گئی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آگے جا کر جیت عوام کی ہو گی، شکست سیلیکٹڈ کی ہو گی، ہارجیت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ہم محنت کر رہے ہیں۔

’’آپ دیکھیں گے، ہم کیسے مینیج کرتے ہیں‘‘

صحافی نے چیئرمین پی پی پی سے سوال کیا کہ اگر اسپیکر نے قرار داد نہ لی تو آپ کیا کریں گے؟

بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا کہ آپ دیکھیں گے کہ پھر ہم کیسے مینیج کرتے ہیں۔

بیک ڈور معاملات طے ہونے کے سوال پر شہباز کا جواب

ایک صحافی نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ کیا بیک ڈور معاملات طے ہو رہے ہیں؟

جس پر شہباز شریف نے الٹا ان سے سوال کر دیا کہ کس نے کہا ہے کہ اس طرح معاملات طے ہو رہے ہیں؟

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج کے پارلیمانی اجلاس میں اسٹریٹیجی طے کی جائے گی۔

اپوزیشن چیمبر میں کون کون موجود؟

دوسری جانب اپوزیشن چیمبر میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، نوید قمر، نثار چیمہ سمیت 90 سے زائد ارکان پہنچ گئے۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپوزیشن چیمبر میں زاہد حامد اور دیگر پارٹی ارکان سے مشاورت بھی کی۔

’’اجلاس بلانا پڑتا ہے، کب تک آئین سے انحراف کریں گے‘‘

سابق وزیرِ اعظم، ن لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس بلانا پڑتا ہے، کب تک آئین سے انحراف کریں گے، جو حکومت آتی ہے وہ اپنی پالیسی بناتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ چارٹرڈ آف اکنامی بنالیں لیکن یہاں سے صرف گالیاں آتی ہیں، اراکین کتنے ہیں پتہ چل جائے گا۔

اختر مینگل کی بلاول بھٹو کے چیمبر آمد

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے چیمبر پہنچ گئے، جہاں انہوں نے چیئرمین پی پی پی کی خیریت دریافت کی۔

صحافی کے سوال، خواجہ آصف کے جواب

پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! عدم اعتماد کے حوالے سے کتنے پر اعتماد ہیں؟

خواجہ آصف نے جواب دیا کہ اللّٰہ کا فضل اور مہربانی ہے۔

صحافی نے ان سے پھر سوال کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کا معاملہ کب تک ختم ہو جائے گا؟

خواجہ آصف نے جواب دیا کہ اگر دن گنے جائیں تو دو تین دن، چار دن، پلس ہفتہ لگے گا۔

صحافی نے ان سے پوچھا کہ جو تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں اس سے مزید تاخیر نہیں ہو گی؟

خواجہ آصف نے کہا کہ فرق کوئی نہیں پڑے گا، اللّٰہ کی مہربانی سے ہار تو وہ چکے ہیں۔

’’وزیرِ اعظم بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں؟‘‘

صحافی نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ وہ مطمئن ہیں؟ آپ ان سے جا کر پوچھیں تو سہی۔

ایم این ایز کیلئے ہدایت نامہ جاری

قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں ایم این ایز کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا گیا تھا۔

ہدایت نامے کے مطابق اجلاس میں مہمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی، ایم این ایز، وزراء کے سیکیورٹی گارڈز اور ذاتی عملہ لانے پر بھی پابندی تھی۔

ہدایت نامے کے مطابق ارکانِ پارلیمنٹ مخصوص پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کے پابند تھے۔

ایم این ایز کیلئے شٹل سروس چلائی گئی

آج کے اجلاس کے سلسلے میں ایم این ایز کے لیے پارلیمنٹ لاجز سے پارلیمنٹ ہاؤس تک شٹل سروس چلائی گئی تھی۔

ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ

قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات بھی کیے گئے۔

پولیس کے مطابق ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ کی گئے اور اسے مکمل طور پر سیل کیا گیا تھا۔

ریڈ زون میں داخلی اور خارجی ایک ہی راستے مارگلہ روڈ کو کھلا رکھا گیا، جہاں اسلام آباد پولیس، رینجرز اور ایف سی کی نفری تعینات کی گئی تھی۔

اسمبلی اجلاس کے موقع پر کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، تاہم ریڈ زون جانے والے ملازمین اپنے دفتر کا کارڈ دکھا کر جا سکتے تھے۔

اسلام آباد ٹریفک پولیس کے مطابق ریڈ زون میں داخلے اور باہر نکلنے کی اجازت صرف مارگلہ روڈ سے تھی۔

سرینا چوک، نادرا چوک، ایکسپریس چوک اور ایوب چوک کو ریڈ زون میں داخلے اور باہر نکلنے کے لیے بند رکھا گیا تھا۔