شہزاد اکبر، شہباز گل کا نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کرنے کا آرڈر معطل

April 12, 2022

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مرزا شہزاد اکبر اور شہباز گِل کے نام پی این آئی ایل میں شامل کرنے کا آرڈر معطل کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مرزا

اس سے قبل عدالتِ عظمیٰ نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کی اسٹاپ لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت شہزاد اکبر نے عدالت کو بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عجیب حالات میں مجھ سمیت 5 افراد کے نام پی این آئی ایل میں ڈالے گئے۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ اس لسٹ کے واچ لسٹ، بلیک لسٹ، اسٹاپ لسٹ سمیت 4 نام ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بلیک لسٹ کو تو یہ کورٹ کہہ چکی ہے کہ یہ غیر قانونی ہے۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب نام ڈالے گئے اس وقت کوئی حکومت نہیں تھی۔

مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا جائے کہ نام ڈالنے کی ریکویسٹ کس نے کی؟

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کل تک تو کہیں نہیں جا رہے؟ انہیں بلا کر پوچھ لیتے ہیں، آپ انچارج رہے ہیں، آپ نے اس کو ختم نہیں کرایا؟

مرزا شہزاد اکبر نے بتایا کہ میں انچارج نہیں، وزیرِاعظم کا مشیرِ داخلہ رہا ہوں۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کیے جاتے ہیں۔

مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ 3 دیگر لوگ سرکاری ملازم ہیں جو ویسے بھی این او سی کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مرزا شہزاد اکبر اور شہبازگل کے نام پی این آئی ایل میں شامل کرنے کا آرڈر معطل کرتے ہوئے اس ضمن میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت نے حکم میں کہا کہ مجاز افسران وضاحت کریں کہ کس کےکہنے پر نام واچ لسٹ شامل کیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نے سماعت کل صبح ساڑھے 10 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

تحریری حکم نامہ جاری

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے شہزاد اکبر اور شہباز گِل کے نام واچ لسٹ میں ڈالنے کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا۔

عدالتِ عالیہ ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت کے لیے مجاز افسر مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

عدالت نے تحریری حکم نامے میں سوال کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کے قریبی آفیشلز کے نام لسٹ میں ڈالنے کی منظوری کس نے دی؟

تحریری حکم نامے میں عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نکتے پر بھی عدالت کو مطمئن کریں کہ یہ انتقامی کارروائی نہیں تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق پٹیشنرز کے علاوہ محمد اعظم خان، محمد گوہر نفیس اور ارسلان خالد کی حد تک بھی نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔

شہزاد اکبر، شہباز گِل نے آج ہی اقدام چیلنج کیا تھا

اس سے قبل پی ٹی آئی کے رہنماؤں شہزاد اکبر اور شہباز گِل نے نام وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی اسٹاپ لسٹ میں شامل کرنے کا اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

تحریکِ انصاف کے رہنما شہزاد اکبر اور شہباز گِل اسٹاپ لسٹ میں اپنے نام ڈالنے جانے کے خلاف درخواست دائر کرنے عدالت پہنچے تھے۔

عدالت میں درخواست شہزاد اکبر کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بیرونِ ملک روانگی پر پابندی خلافِ قانون ہے، ہمارے خلاف کوئی مقدمہ نہیں، کوئی الزام تک نہیں۔

دونوں پی ٹی آئی رہنماؤں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ بیرونِ ملک روانگی کے لیے ہم پر عائد کی گئی پابندی ختم کی جائے۔

شہزاد اکبر نے کیا کہا؟

اس موقع پر مرزا شہزاد اکبر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی کارروائی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسی رات نام اسٹاپ لسٹ میں کس نے ڈالا؟ نام اس وقت اسٹاپ لسٹ میں ڈالا گیا جب نہ کابینہ تھی، نہ حکومت، نہ وزیرِاعظم۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم کہیں نہیں جا رہے، اپنے لیڈر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، میں تو اوورسیز پاکستانی بھی نہیں، حصولِ تعلیم کے 6، 7 سال کے علاوہ ساری زندگی یہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت ایف آئی اے کو بلا کر پوچھے کہ نہ حکومت تھی، نہ کابینہ تو کس کے کہنے پر نام ڈالا گیا؟ نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے کے لیے کوئی کیس ہونا چاہیے، ریکویسٹ کرنے والی کوئی ایجنسی ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو بتانا ہو گا کہ انہیں کس نے یہ آرڈر کیا تھا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے اور ڈی جی اینٹی کرپشن کا نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنا مضحکہ خیز ہے۔

شہزاد اکبر نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے نے اپنے اس ڈائریکٹر کا نام بھی اسٹاپ لسٹ میں ڈال دیا جو منی لانڈرنگ کے کیسز لیڈ کر رہا تھا، وہ سرکاری افسر ہے، وہ تو اجازت کے بغیر یوں بھی ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔