ناکام ریاست کی نشانیاں

September 27, 2013

کسی ریاست کے استحکام کے بارے میں اس کا جغرافیہ، تاریخی پس منظر، محلِ وقوع، اس کے قیام کا بنیادی نظریہ، مختلف مذاہب اور قومیتوں کے باہمی تعلقات اور طرزِ حکمرانی وغیرہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ عوامل قدرتی ہوتے ہیں اور کچھ انسانی کاوش کے محتاج۔ جیسے جن ریاستوں کا جغرافیہ ’’تاریخی‘‘ہوتا ہے۔ وہ نسبتاً مضبوط ہوتی ہیں مثال کے طور پر ایران، ترکی ، انگلینڈ۔ اسی طرح دوسرے قدرتی فیکٹر کی وجہ سے جن ممالک کا جیو پولیٹیکل محل وقوع جتنا زیادہ اہم ہوتا ہے اُن کا استحکام اتنا ہی زیادہ خطرے میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکرائو کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے ممالک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ اسی طرح اس کے ہمسائے میں دنیا کی دو بڑی معیشتیں یعنی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک چین اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت واقع ہے۔ صرف یہی نہیں تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں اور قدرتی معدنیات سے بھرپور افغانستان، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس کے دہانے پر موجود ہیں۔ اس بے انتہا اہم قدرتی محلِ وقوع کی وجہ سے بھی پاکستانی ریاست عدم استحکام کا شکار رہی ہے لیکن ان دو اہم قدرتی عوامل کی کمزوری کو صحیح حکمتِ عملی کے ذریعے طاقت میں بھی تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ اگر پاکستان بہتر حکمتِ عملی کی وجہ سے داخلی طور پر مضبوط ہو جاتا تو اپنے محلِ وقوع کی اہمیت کی وجہ سے بہتر بارگیننگ کی پوزیشن اختیار کر سکتا تھالیکن ایسا نہ ہو سکا ،غلط ترجیحات نے وراثت میں ملنے والی ریاستی کمزوریوں کو دور کرنے کے بجائے اور بڑھا دیا۔ جہاں تک ریاست کے اساسی نظریے کا تعلق ہے تودنیا کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ مفادات کی بہم رسانی ہی ریاست کے افراد کو باہم متحد رکھ سکتی ہے۔ درحقیقت موجودہ ترقی یافتہ اور مہذب نظامِ حکومت تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات کا ہی نچوڑ ہے جس میں وہ تمام اخلاقی اصول بیان کئے گئے ہیں جنہیں آفاقی سچائیوں کے نام سے جانا جاتا ہے مثلاً سچ بولو، پورا تولو، کسی کا حق نہ مارو، مظلوم کی داد رسی کرو، غربت مٹائو، خلقِ خدا کی بہتری کرو وغیرہ وغیرہ مگر صرف مذہب کا نام لئے بغیر تاکہ وہ عمل فرقہ واریت اور انتشار کا شکار نہ ہو جائے۔ اسی نظریئے کو سیکولر ازم یا مذہبی رواداری کہتے ہیں۔ جسے کچھ لوگ غلط طور پر الحاد یا لادینیت کا نام دیتے ہیں۔ ایک سیکولر ریاست میں کسی کو اس کے مذہبی نظریئے پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا البتہ مذہب کے نام پر زبردستی اور تشدد کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنا بذاتِ خود ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
آج مذہبی بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت گری ہی موجودہ پاکستان کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی ریاست کی بنیادیں مذہبی رواداری یا سیکولر ازم پر استوار کر لی ہیں۔ وہاں نہ تو مذہب خطرے میں ہے اور نہ ہی مسلمان بلکہ ہر کوئی بلاامتیازِ مذہب و رنگ و نسل ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے اور ان کی معیشت اور استحکام کی صورتحال ہم سے بہتر ہو گئی ہے۔ اسی طرح طرزِ حکومت بھی ملکی استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا کا ہر نظام آزمانے کے بعد انسانی تاریخ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ابھی تک کے دریافت شدہ تمام نظاموں میں بہترین نظامِ حکومت جمہوریت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابِ فرانس کے بعد یورپ نے اپنے جمہوری نظام کی بدولت جس برق رفتاری سے ترقی کی ہے انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ڈکٹیڑشپ چاہے کسی بھی شکل میں ہو انسانی حرمت، شعور اور بنیادی حقوق کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت جیسے جیسے میچور ہوتی جاتی ہے عوام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور خواص کا زور ٹوٹ جاتا ہے جبکہ ڈکٹیٹر شپ اس کے برعکس اکثریت یعنی عوام پر چند افراد کے تسلط کا نام ہے۔ جس سے عوام میں مایوسی اور ریاست سے بغاوت کے جذبات جنم لیتے ہیں پاکستان میں اس کے قیام سے لیکر زیادہ عرصہ تک ڈکٹیٹر شپ کا راج رہاہے۔ جس کے دوران 1947کا پاکستان جو ووٹ یعنی جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا تھا، ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیالیکن تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا بلکہ اسے پھر بار بار دہرایا گیا۔ حالانکہ جمہوریت کا تصور اسلام سمیت کسی مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ قرآن پاک میں تو شوریٰ یعنی مشورے کے نام سے ایک سورت نازل فرمائی گئی کہ اپنے معاملات باہمی مشاورت سے سرانجام دو۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔
اسلام میں ملوکیت، وراثت اور طاقت کے زور پر حکومت حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ریاستی استحکام کے بارے میں انتہائی اہم عنصر کسی ریاست کا اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے۔ اندرونی اور بیرونی امن کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ جنگیں صرف تباہی لاتی ہیں۔ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے اختلافات کو جنگ سے بچے بغیر تدبر سے حل کرنا ہی عقلمندی ہے۔ جنگی جنون نہ صرف ترقیاتی کاموں کو روک دیتا ہے بلکہ معاشرے میں انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مستقبل کے خطرات سے بے نیاز ہو کر ہمارے آمر حکمرانوں نے بھارت، سوویت یونین اور افغانستان کی مخالفت میں جس طرح پاکستان کو امریکی مفادات کی غلامی میں دے دیا تھا، آج اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کی شکست و ریخت نے تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی اکثریت کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل حل ہونے کے بجائے پہلے سے بھی بدتر صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اگر آپ کی سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں طرف بدامنی ہو تو آپ کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں؟ کسی ریاست کے کامیاب یا ناکام ہونے میں اہم عنصر’’قومی ترجیحات‘‘ ہے۔ جو افراد یا اقوام مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں فروعی مسائل یا نان ایشوز میں صرف کرتے ہیں وہ کمزور سے کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے بڑے مسائل روٹی کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت سے متعلق ہیں۔ جب آپ ان پر توجہ دینے کے بجائے لوگوں کے اعتقادات ، شکل وصورت ، وضع قطع اور نظریات پر اپنی توانائیاں صرف کریں گے تو معاشرے میں انتشار، نفرتیں اور ابہام جنم لیں گے۔ جو ریاست کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا سفر سلامتی کی طرف ہے یا خدانخواستہ کسی نئی تباہی کی طرف؟