جکڑا پاکستان :حل، صرف بلا تاخیر الیکشن

May 17, 2022

قارئین کرام ! ملکی حالات کی سنگینی باشعور شہریوں اور مسلط نظام بد (اسٹیٹس کو) میں محدود و مفقود پالیسی اور بڑے نااہل و خودغرض (ایٹ لارج) فیصلہ سازوں نیز ان پر عملدرآمد کے ذمے دار کل پرزوں پر مکمل عیاں ہے۔ حکومت، اپوزیشن، عدلیہ اور فوج میں سے کسی واحد کیلئے جکڑی مملکت کو بحران سے چھڑانا ناممکن ہو گیا ہے۔سواب اس حماقت کی قطعی گنجائش نہیں کہ اپنے اپنے سجائے سیاسی حوالوں محدود خواہشات اور اپنے ہی دائرے کی جائز ناجائز ضرورتیں پوری کرنے کیلئے مغزماری کی جائے۔ چیلنج تو یہ ہے کہ متذکرہ اسٹیک ہولڈرز مل کر بھی کوئی نتیجہ خیز فیصلہ سازی کرتے معلوم نہیں دے رہے۔ فاصلے کم کرنے سے زیادہ فاصلے بڑھانے والا ابلاغ کہیں زیادہ ہو رہا ہے۔ متعلقہ ذمے دار پیشہ وروں پر غلبہ ماحول سےتبدیل ہوتی نفسیات کا ہو رہا ہے جبکہ پیشہ ورانہ اقدار معدوم ہو رہی ہیں کوئی شک نہیں کہ تیز ترین ہوتی تبدیلی میں بھی اسٹیٹس کو کی منفی طاقت اپنا رنگ دکھانے اور جمانے کی شعبدہ بازی کا مسلسل اور مقابلے کا ثبوت دے رہی ہے۔لیکن پھر بھی قطعی اور بے وقت بلاجواز پارلیمانی مہم جوئی سے ’’آئین وعدل‘‘ کے زور پر بارہ جماعتی اتحادی لنگڑی بطخ کی مانند جو حکومت بنی ہے ابتدائی قدم اٹھاتے ہی اس کا ایک قدم اٹھنا ہے تو یہ جدہ جاگرتی ہے تو دوسرے پر دبئی اور تیسرے پر لندن، پھر چار دن اٹھ ہی نہیں پاتی۔ سخت متنازعہ ’’وسیع البنیاد‘‘ اتحادی حکومت کسی طور عوام الناس کو ایٹ لارج ہضم نہیں ہوئی۔چلیں! جو ہوا سو ہوا ب خدارا مان لیا جائے کہ بحران حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے سے ہی بتدریج کم ہو گا اور ہم معمول کی طرف بڑھتے کم کرتے کرتے اسے ختم کر پائیں گے، سیاسی و آئینی کو اور اقتصادی کو بھی۔ حقیقت پسندی کا پہلا اور فوری تقاضہ یہ ہے کہ مان لیا جائے کہ موجودہ مجموعی ملکی، علاقائی اور عالمی صورتحال میں اچھی بھلی چلتی پھر بھی مقبولیت کھوگئی فقط ڈیڑھ سال کی آئینی مدت پوری کرتی حکومت کو اکھاڑ کر اپنے پیروں پر تو کلہاڑی چلائی ہی ہے قوم و ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

عزیزانِ من !آئینی بحران پیدا کرنے کے ملزموں و مجرموں کا تعین کئے بغیر اور فرد جرم کی تیاری میں لاحاصل پاپڑ بیلنے کی بجائے اپنی تقسیم کم کریں اور جبرو صبر سے ہی سہی رویے بدلیں جتنے بدل سکتے ہیں لیکن جلد سے جلد یقیناً انسانی زندگی کا مشکل ترین اور محال کام یہ ہی ہے لیکن یہ تو اب کرنا ہے یقین جانئے کوئی اور دوسری راہ نہیں۔ غلطیوں کو تسلیم کرنا عظمت اور بہادری ہے۔چلیں معاملہ سیاست کا ہے سرعام نہ سہی رویے عمل اور جرات مندانہ اقدامات سے اس کا موثر ترین اظہار بھی کیا جائے اور خود اور ملک کو بھی خدا کے عذاب عظیم سے بچایا جائے۔سن لیں اور سوچیں!حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں سب کردار سب ادارے اور سب اسٹیک ہولڈرز جو بحران میں زیر بحث آئے یا آ رہے ہیں اور متنازعہ بنتے جا رہے ہیںاور ہاں ٹاک آف ٹائون اور سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں سری لنکا بحران کی تصویری و خبری کوریج زیر بحث آنے لگی ہے۔ہماری اپنی قومی ہنگامہ آرائی اور اس کے بیرونی سازش سے جڑنے کے بعد مجموعی قومی ابلاغی دھارے میں دوست ملک کی انتہائی تشویشناک کیفیت کو نظرانداز کیا گیا معلوم نہیں دانستہ یا نادانستہ لیکن میری ذاتی رائے میں یہ اچھا ہی ہوا (جواب نہیں ہو رہا)وگرنہ اسکی خبری اہمیت تو پاکستانی میڈیا کے لیے اتنی ہے کہ اسے خاصی جگہ اور وقت ملتا۔موجودہ صورتحال میں اس کا تجزیہ اپنی جگہ حساس ہے لیکن ہمارے لیے بہت بڑا سبق۔یہ تو درست ہے کہ پاکستان، عراق، شام اور لیبیا ہے نہ افغانستان، لیکن ایک لحاظ سے ہمارا گھمبیر بحران سری لنکا سے بھی تشویش و فکر کا حامل ہے۔

قارئین کرام !ہم پاکستانی بحرانوں اور بُرے وقتوں کے تو مکمل عادی ہیں ان کی حساسیت نے ہمیں من حیث القوم کبھی ہوش ہی نہیں آنے دیا اور ہمارا سماجی رویہ جامد ہوتا گیا۔خصوصاً اکابرین مملکت کا لیکن یقین جانئے جاری بحران امکانی نتائج کے اعتبار سے جہاں بے حد تشویشناک ہے وہاں اسی میں ملک و قوم کے راہ راست اختیار کرکے بیش بہا مطلوب نتائج حاصل ہونے کے امکانات بھی جھانک رہے ہیں اس پر آئندہ ’’آئین نو‘‘ میں الگ اور قدرے مفصل بات ہو گی یوں سردست تو سمجھئے کہ اب ٹیکنالوجی کے زور پر ملک بھر میں دہائی مچی ہے کہ دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے کہ دہائی دینے والے بھی تو جکڑے ہوئے ہیں لیکن لمحے لمحے سے باخبر اور شور ڈالنے جوگے تو ہیں۔یہ راز نہیں ابلاغیات کا کھلا علم ہے کہ انسانی زندگی کا مشکل ترین کام کسی فرد اور قوم کے جامد رویے میں تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ علم کا سب سے بنیادی اور بڑا نکتہ یہ ہے کہ یہ کام عقل و ابلاغ کے اختراعی اور مسلسل و مشترکہ استعمال سے ہو سکتا ہے،علم عمرانیات (سوشیالوجی ) کا یہ کھلا راز جڑا ہے۔

NONE OF US AS SMART AS ALL OF US

ہم میں کوئی ایک اتنا سیانا نہیں جتنے ہم سب مل کر ہیں، اسے ہی اختیار کرکے مشکل ترین اور ناممکن نظر آتے چیلنج سے مل کر اور اتفاق رائے پیدا کرکے نپٹا جا سکتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں بربادی کے بعد جاپانیوں نے اسی اصول کو اپنا کر اپنی بربادی کو کمال ترقی و استحکام میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کے سنگین بحران میں بھی حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہیں کہ حل الیکشن ہی ہے،اختلاف، کب، کیسے اور کون کرائے پر ہونا ٹھہر گیا ہے حل تو موجود ہے نا۔ اس طرح معاشی جکڑ سے نپٹنے کے لیے بھی کوئی مشترکہ حل پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں میں قائدین اور خاندانوں کی جکڑ بندی اور بڑے بڑے کیلیبرکے اکابرین تو موجود ہیں جنہوں نے اسٹیٹس کو کے بے حد طاقت پکڑنے پر اور اپنے محدود مقاصد کی خاطر نظام بد سے مفاہمت کر لی ہے۔ لیکن قدرے جرأت، قومی سوچ اور پروپیپل ہیں تو ہر جماعت میں یا ان جماعت کے کھلے یا محتاط و محدود حامیوں میں انہیں پارٹیوں سے باہر لاکر ایک متفقہ و مشترکہ پلیٹ فارم یا غیر رسمی مقام پر جمع کرکے یہ برین اسٹارمنگ جلد سے جلد کرالی جائے کہ الیکشن کب؟کیسے اور کون کرائے؟ روایتی انتظامات اور میکانزم تو اعتبار بھی کھو بیٹھا اور ادارے اپنی انا اور قومی تقاضوں کے مقابل نسبتاً محدود مقاصد کے اسیر ہو گئے وہ اس پر مطمئن رہے تو ملک کے ساتھ وفا نہیں ہو گی خواہ یہ پارلیمان ہو، عدلیہ، انتظامیہ یا فوج اور یقیناً میڈیا بھی تو پھر سوچیں اور کریں کچھ۔ وقت بالکل نہیں اور چیلنج گمبھیر۔

وماعلینا الابلاغ !