عالمی اقتصادیات پر جنگ کے اثرات

May 19, 2022

یوکرین پر 75 سے زائددنوں سے جنگ مسلط ہے، یہ جنگ پوری دنیا کے لیے فلیش پوائنٹ بن چکی ہے، جس میں کسی بھی وقت خطرناک اضافے کا خدشہ ہے۔ امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے اس جنگ کو ہوا دی لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے ہی لا تعلق ہوگئے جبکہ یوکرین کوبھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ روس فتح کے دعوے کر رہا ہے، پیوٹن نے یوکرین جنگ کوانااور بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔دنیا کی بڑی طاقتیں دوبارہ صف آراہو رہی ہیں۔ غور ان نکات پر ہونا چاہیے کہ یوکرین جنگ کے پر امن حل کے آپشنزاوراس طویل جنگ کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔مین اسٹریم اور سوشل میڈیا انتہائی گمراہ کن مغربی بیانیے کو پرموٹ کر رہاہے۔ یوکرین جنگ ہٹلر کے یورپ پر حملے سے مماثل نہیں۔ حالانکہ اسے وہی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے یورپ پر حملہ سیاسی برتری کی جنگ تھی، جس کی بنیاد نسلی اور لسانی پس منظر پر تھی۔ یوکرین پر حملے کا نازی جرمنی جیسی مثالوں سے موازنہ کرنا فکری انحطاط ہے۔ اس جنگ کو یورپ اور نیٹو ممالک نے بھڑکایا، سوویت یونین تحلیل ہو گیا لیکن روس میں مغربی مداخلت اور ماسکو پر قبضے کا خدشہ اب بھی موجود ہے۔ نیٹو میں یوکرین کی رکنیت نے موجودہ تنازعہ کو جنم دیا۔ پیوٹن یوکرین پر حملہ آورنہیں ہوابلکہ وہ مغربی بوٹوں سے اپنی سرحدوں کا دفاع کر رہا ہے، کیونکہ مدِ مقابل کئی قوموں کی افواج اور ان کے مہلک ہتھیارہیں۔ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہوتا ہے تو خطے میں روس کا اثرو رسوخ ماند پڑتا ہے۔ اقتصادی تعلقات خطے میں روسی خدشات کے عکاس ہوں گے کیونکہ نیٹو اتحاد روس مخالف تجارتی سرگرمیوں کا حصہ ہوگا۔ لہٰذا، یہ روس کی بقا کی جنگ ہے، اگرچہ، یہ ایک جارحانہ جنگ کی طرح نظر آتی ہے، لیکن یہ ماسکو کی طرف سے نیٹو اور یورپی اقدامات کے خلاف اٹھایا گیا ایک جوابی اقدام ہے۔ ایک بات یقینی ہے، پیوٹن پیچھے نہیں ہٹے گا۔

روس یوکرین میں جنگ کو وسعت دے رہا ہے۔ دوسری جانب یوکرین کو مغرب کی جانب سے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ راکٹ، ڈرون، ٹینک شکن گولے، انٹیلی جنس اور ہر قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی جاری ہے۔ یہ اقدامات علاقے میں روسی افواج کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ پیوٹن کو کمانڈ ان جنرل کی تبدیلی کاسہارا لینا پڑا۔ ان حالات میں بھی پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین میں غیر ملکی مداخلت جاری رہی تو جواباً شدید فوجی ردعمل دیا جائے گا،یہاں تک کہ ماسکو کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ جوبائیڈن اس امر سے واقف تھا، اس نے شروع ہی میں یہ واضح کر دیا تھا کہ یوکرین جنگ میں امریکہ برّی فوج نہیں بھیجے گا۔ لیکن فوجی انٹیلی جنس اور ساز و سامان کی فراہمی کا معاملہ جنگ کو زیادہ پیچیدہ بنا رہا ہے، کسی بھی طرف سے معمولی سی غلط فہمی جوہری یا روایتی کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ روسی فوج کو بھی اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جوہری کشیدگی نا صرف یوکرین بلکہ پڑوسی یورپی طاقتوں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔خدانخواستہ ایسی صورت میں جنگ کی اختتامی لکیر کا تعین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ جنگ روس اور یوکرین دونوں کے دائرہ اختیار ہی سے باہر جا رہی ہے۔

یوکرین کی جنگ نہ صرف یوکرینیوں بلکہ روسیوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ روسی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ تجارت کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ مقامی صنعت اپنے کاروباری ٹرن اوور کا 35 فیصد گنوا چکی ہے، صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ پابندیوں سے روسی معاشرے کے غریب ترین طبقوں کی بقا خطرات سے دوچارہے۔اب سوشل میڈیا پر یوکرین بھی ہدفِ تنقید بن رہا ہے، لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، پیوٹن نے اسے بقا کی جنگ بنا دیا ہے نہ کہ فتح کی۔ مطالبات واضح کر دیے گئے ہیں، ماسکو ہر سطح پر جانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ماسکو دباؤ میں ہے۔ پیوٹن یہ جنگ ہارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا،جس طرح سوویت یونین افغانستان میں ناکامی کا منہ دیکھ چکا ہے، روس ایک اور ناکام فوجی مہم کا سامنا نہیں کر سکتا۔ یہ روس کے لیے کرو یا مرو کی صورت حال ہے، کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت، عالمی سطح پر تباہی کو دعوت دے سکتی ہے جو دنیا بھر کے لیے ہلاکت خیز ہو گی۔ یوکرین کو مغرب کی جانب سے بڑے پیمانے پرعلانیہ اور غیر علانیہ حمایت حاصل ہے۔یوکرین کی جنگ نیٹو ممالک کی پشت پناہی کا ثمر تھی، لیکن موجودہ صورتِ حال انہیں اس مقام تک لے آئی ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یورپ بھی معاشی و سماجی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ تجارتی سرگرمیوں میں کمی آئی اور اسٹاک مارکیٹ کریش کر رہی ہے۔ ایندھن اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بدترین مہنگائی کو جنم دے رہی ہیں جو عوامی بے چینی اور بے روزگاری کی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔

روسی پیچھے ہٹنے والے نہیں، یورپ کبھی بھی روسی افواج کی طرف سے اپنی پولینڈ کی سرحدوں سے غافل نہیں ہوگا۔ کسی بھی فریق کے حق میں جنگ کا فیصلہ کرنے کے لیے مداخلت کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تباہی اور ایک بڑے تنازعہ کا باعث بن سکتا ہے۔ یوکرین کے پاس بھی اگرجوہری ہتھیار ہوتے تو جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اس کے باوجوددونوں ممالک کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں۔یوکرین کی جانب سے اعتدال پسند اور غیر جانبدارانہ کردار اس تنازعہ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جو مغربی یورپ اور طاقتور روس کے درمیان ایک بفر بن گیا ہے، جو اب بھی ایک مسلمہ فوجی قوت ہے۔ اس جنگ کا کوئی واضح حل نظر نہیں آ رہا، آپشنز روز بروز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ جوں جوں جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے بے قصور یوکرینی عوام کی ہلاکتیں، ملکی اور عالمی معاشی حالات، بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ پوری دنیا اس جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو رہی ہے، عالمی اقتصادیات اس وقت اس تنازعے کے باعث بے یقینی کا شکار ہے اس جنگ کا طول پکڑنا روس، یوکرین اور امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا کی اقتصادیات کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)