اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ

May 19, 2022

گزشتہ سے پیوستہ کالم کا سلسلہ آئندہ پر چھوڑتے ہوئے، تیزی سے بدلتے سنگین حالات کی نشان دہی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ لکھناپڑ رہا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی عارنہیں کہ میاں محمد شہباز شریف کی گیارہ جماعتی حکومت کے ابتدائی 30 دنوں میں جو توقعات تھیں وہ پورا ہوتی نظر نہیں آتیں۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ گزشتہ 70 برس کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل سابق وزیراعظم عمران خان کی پونے چار سالہ حکومت نے اپنی نااہلی، بدانتظامی، ہٹ دھرمی اور انتقامی کارروائیوں کے ذریعے اس طرح ٹھونکی ہے کہ مردے کو باہر نکالنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ 70 سال کی تباہی ایک طرف خان کے پونے چار سال دوسری طرف، انجام آپ کے سامنے ہے کہ اب اس تباہی کا ازالہ کرنا کسی ایک کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تباہی کو مزید پھیلنے سے روکنے کا بیڑہ گیارہ جماعتوں نے مل کراٹھانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خان کے بقول اس کا خطرناک ہونا ہے۔ اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہ جانا چاہئے کہ خان اس حد تک خطرناک ہو چکا ہے کہ وہ سب کو تباہ و برباد کرنے کی آخری حدیں چھوتا نظر آرہا ہے۔ بار بار انتباہ کے باوجود خان واضح طور پر قومی اداروں پر خودکش حملے کرکے یہ ثابت کررہا ہے کہ اگر میں نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں اور ساتھ ہی انہیں نیوٹرل نہ رہنے پر بھی اُکسا رہا ہے۔ خان ایک نام نہاد امریکی سازش کی آڑ میں جو بیانیہ بنا رہا ہے ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ وہ ملک و قوم خانہ جنگی کا شکار کر سکتا ہے۔ خان کے چاہنے والے انصافیوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی اور نہ ہی وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے پر تیارہیں کہ امریکی سازش کا اصل مہرہ کون بن رہا ہے؟ وزیراعظم خان کے دورِ حکومت میں جن کڑی شرائط پرعالمی اداروں سے بے دریغ قرضے لیے گئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان قرضوں کے عوض عوام کو کیا ملا؟ صرف لنگر خانے اور پناہ گاہیں، قومِ یوتھ خود اپنے گریبان میں جھانکے اور جس جوش و جذبے سے وہ خان کے پیچھے ٹائیگر فورس بنی کھڑی ہے، گزشتہ پونے چار سال میں اس فورس کو خان نے کیا دیا؟ جس قوم کے ذہن پر قفل لگ جائے، جو دیانت داری سے حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے اور جسے یہ سمجھ نہ آرہی ہو کہ اصل سازشی کون ہے؟ جو بار بار سڑکوں پر آکر کاروبارِ زندگی معطل کرنے پر تُلا ہو، جو کھلے عام اداروں کے سربراہوں کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ انہیں بلیک میل کرکے کہے کہ وہ نیوٹرل نہ رہیں اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا راستہ کھولیں۔ جب پارٹی سربراہ کی یہ سوچ ہوگی کہ وہ اپنے مقرر کردہ متنازعہ گورنر پنجاب کے ذریعے آرمی چیف کو کھلے عام خط لکھ کر پنجاب کے معاملات میں مداخلت کی دعوت دے،جو شخص آئین میں دیئے گئے تحریک عدم اعتماد کے حق کےنتیجے میں حکومت سے نکالے جانے کے اقدام کو تسلیم نہ کرے اور پھر ایسے شخص سے آپ یہ توقع رکھیں کہ وہ جمہوریت پسند ہے تو ایسی سوچ پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ گیارہ جماعتی حکومت کا ہی صبر ہے کہ اس نے خان اور متنازعہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو آرمی چیف کو سیاسی معاملات میں براہِ راست مداخلت پر اُکسانے کے الزام میں گرفتار نہیں کیا لیکن آپ دیکھیں گے کہ جب یہ بات ہاتھ سے نکلے گی تو ایک وقت آئے گا کہ حکومت اداروں کی ساکھ بچانے کی خاطر ایسا کوئی بھی فیصلہ کرے گی۔ خان کی انتہا پسندانہ سوچ مودی اور ہٹلر سے ملتی جلتی نظر آتی ہے۔ شاید وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہے کہ وہ قوم یوتھ کو ہندو انتہا پسندوں کی طرح پاکستان میں بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ قوم یوتھ کو جس طرح ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے وہ اسلام آباد لانگ مارچ دھرنے کی صورت اس ملک میں آگ لگائے گی اور یہ بھی خدشہ ہے کہ خان اس دھرنے میں سمندر پارپاکستانیوں کو زرِ مبادلہ نہ بھیجنے پر ورغلائے گا۔ خان کے طویل ترین دھرنے پر بھی اختلاف تھا اور متوقع دھرنے پر بھی یہی سوچ ہے۔ پہلے دھرنے کے نتیجے میں چین سے تعلقات خراب ہوئے۔ سی پیک جو ہماری معاشی شہ رگ تھی اسے کاٹا گیا، خان اپنی سازشی تھیوری میں کامیاب ہوا۔ نواز شریف کو پانامہ کی بنیاد پر ٹرائل کرکے اقامہ پر نکالا اور خان کو اقتدار میں لایا گیا۔ پونے چار سال میں وزیراعظم خان ملک کا دیوالیہ نکال کر پوری قوم کو سنگین معاشی بحران میں مبتلا کرکے چلتا بنا اور آج امریکی سازش کے بیانیے پر پوری قوم کو ایک بار پھر ورغلا رہا ہے کہ اس کے خلاف سازش ہوئی اور ذمہ دار اداروں کے سربراہوں کو بلیک میل کرکے بدنام بھی کررہا ہے، کیا یہ سازش بھی امریکہ ہی کررہا ہے کہ ایک طرف ملک دیوالیہ ہو چکا، دوسری طرف خان فوج کو سیاسی” کُو“ کی دعوت دے رہا ہے؟ دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کب سری لنکا بنے گا؟اصل سازشی ہم خود ہی ہیں۔ قوم یوتھ کو ایک پیغام ہے کہ اگر عقل سے کام نہ لیا تو خدانخواستہ یہ دنوں کی بات ہے کہ سارا کھیل ہاتھ سے نکل جائے گا۔ لوگ اگلے پچھلے تمام سانحات بھول جائیں گے۔ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہم خود ہی کافی ہیں جو ان جیسوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ جنہیں گھر میں کوئی روٹی تک نہیں دیتا، جو کہتے کچھ لیکن دورنِ خانہ اپنے ہی ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا یہ چھپکلی نگلی نہیں جاسکتی۔ اداروں کے خلاف خان کی مہم کا انجام انتہائی بُرا ہوگا اوراس کے نتائج خان نہیں ہم سب بھگتیں گے۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، پاکستان کی خاطر ایک ہو جاؤ۔