تفرقہ بازی: اسباب اور سِدّباب

September 30, 2013

فرقہ پرستی نے ملک کو جس تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے قبل اس کے کہ میں اِس پر اس کے اسباب پر اور سدِّباب پر اپنے خیالات کا اظہار کروں میں آپ کی خدمت میں کلام مجید میں موجود اللہ تعالیٰ کے چند فرمودات پیش کرنا چاہتاہوں جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپس میں میل و ملاپ، محبت اور خلوص کا حکم دیا ہے اور مذہب میں نفاق پیدا کرنے سے سخت منع کیا ہے۔
(۱)’’اور سب مل کر اللہ کی ہدایت اور دین کے رشتہ کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی اور اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔ ‘‘(سورۃ آل عمران، آیت 103 )۔ (2) ’’اللہ کے رسول کے کردار میں تمہارے لئے ایک اعلیٰ مثال ہے اور اس شخص کیلئے جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہو اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو ‘‘ (سورۃ الاحزاب، آیت 21 )۔ (3) ’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے‘‘۔ (سورۃ الحجرات، آیت 10 )۔ (4) ’’اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پابندی کرو اور آپس میں نفاق نہ ڈالو ‘ ایسا کرو گے تو تم بزدل (کمزور) ہوجائو گے‘‘۔ (سورۃ الانفال، آیت 46 ) ۔
آئیے اب اپنے موضوع پر کچھ بات چیت کرتے ہیں۔
دیکھئے جس ملک کو اس کے بنانے والوں نے بے مثال اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد فراہم کی تھی آج وہ ملک تفرقہ بازی کا تماشا بنا ہوا ہے۔ یہ ملک پاکستان تو وہ ملک ہے جس کے عظیم قائدین نے قوم پرستی کے طوفان کو شکست دے کر یہ ریاست اسلامی اخوت کی بنیاد پر حاصل کرلی تھی۔ عثمانی خلافت جو کئی صدیوں تک نہ صرف مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز رہی تھی اپنے زمانہ کی ایک عالمی طاقت بھی تھی۔ اس طاقت کو بھی قومیت پرستی کے طوفان نے تتر بتر کردیا تھا۔ خلافت کا خاتمہ ہوتے ہی چاروں طرف قومیت پرستی کی زہریلی ہوائیں چلنے لگیں اور عالم اسلام کا اتحاد سیاسی طور پر قائم نہ رہ سکا۔ ہمارے عرب بھائیوں پر اس زہر کا اثر سب سے زیادہ ہوا اور وہ اپنی ناسمجھی اور غیروں کے دھوکہ میں آکر چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں بٹ گئے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک ہر ایک کی زبان پر قوم پرستی کاہی نعرہ تھا جس کے طفیل عالم اسلام کی سیاسی وحدت بکھر کر رہ گئی۔ بڑے بڑے قوم پرست افراد نام نہاد ہیرو بن کر منظر پر نمودار ہوگئے، ناصر، سوئیکارنو، بورقیبہ تو بڑے بڑے قوم پرست ’’ہیرو‘‘ قرر پائے مگر قریب قریب ہر جگہ ہی یہ زہر آلود آندھی چلی اور اسلامی ممالک کے رگ و پے میں سرایت کرکے دشمنان اسلام کا کام آسان کرگئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب تاریخ انسانی کا شاید سب سے بڑا ظلم اور فریب فلسطین کے باشندوں کے ساتھ کیا گیا۔ ساری دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں زبردستی بسا دیا گیا اور صدیوں سے رہنے والے فلسطین کے باشندوں کو نکال باہر کیا گیا۔ یہ کام برطانوی سامراج کی براہ راست نگرانی اور کھلی امداد سے کیا گیا۔ اس کے جواز میں دلیل یہ گھڑی گئی کہ چونکہ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں پر مظالم کئے تھے اس کے معاوضہ کے طور پر ان ’’مظلومین‘‘ کے لئے ایک ’’وطن‘‘ اہل فلسطین سے غصب کرکے فراہم کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ قومیت پرستی کی زہر آلود ہوائوں میں ہمارے برصغیر کے مسلم رہنمائوں نے اسلامی اخوت کے اصول پر ایک آزاد ریاست حاصل کر کےدکھادی۔ گویا دریا کے بہائو کے خلاف انہوں نے اپنی جدوجہد کا رخ کیا اور اپنے خلوص نیت اور حکمت و دانش سے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد اسلامی ریاست کو قائم کرکے دکھا دیا جس کی بنیاد اسلامی نظریہ پر رکھی گئی اور یوں ہندو اکثریت ڈھکوسلہ یعنی متحدہ کے ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو شکست فاش دے دی۔ یہ کارنامہ ایسے وقت میں انجام پایا جب دنیا میں ہر جگہ وطنیت اور قوم پرستی کے نظریات عروج پر تھے۔
لیکن آج اس ریاست اور اس معاشرہ کی صورتحال کیا ہے؟ آج کی صورتحال یہ ہے کہ شاید دنیا میں کسی ملک سے بڑھ کر ہمارے ہاں فرقہ پرستی اور مذہبی تفرقہ عروج پر ہے اور طرح طرح کے فرقے ہمارے درمیان پیدا ہوگئے ہیں۔ صرف مذہبی فرقوں پر بس نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لسانی، نسلی، علاقائی، معاشی، تہذیبی بنیادوں پر مسلسل اس معاشرہ کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی قابل ذکر گروہ بچا ہو جو اپنے کو ان خانوں میں بانٹ کر نہ رہتا ہو اور اپنے مسلمان یا پاکستانی ہونے کی شناخت ہی پر اکتفا کرتا ہو۔ مذہبی فرقوں کا حال دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیا یہ وہی ملت ہے جس کو ملت بیضا کا نام دیا گیا تھا؟ قرآن نے اس کو خیر امت قرار دیا تھا؟ رحمتہ للعالمین نے اس کو آفاقی انسانی پیغام عطا کیا تھا، توڑنے کے بجائے انسانوں کے دلوں کو جوڑنے کا منصب آپ نے اس کے سپرد کیا تھا۔ آج حیرت ہوتی ہے کہ اس پاکستان میں بسنے والوں کو حضرت علامہ اقبال ؒ نے یہ درس دیا تھا کہ :
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
کیا اپنی تقسیم درتقسیم فرقہ بندیوں کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے عظیم فکری رہنما شاعر اسلام نے ہمیں متنبہ کیا تھا کہ:
افسوس ہے کہ ہم نے سب کچھ بھلا دیا، علامہ اقبال ؒ کو کیا کہئے ہم نے تو خود قرآن اور سنت نبوی کی دائمی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اپنے آپ کو فرقوں میں بانٹ کر ہم اپنی شناخت اور شخصیت گم کرنے میں لگ گئے، اپنے کرتوتوں سے ہم نے ملت بیضا کا روشن چہرہ ہی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’اس (اللہ) نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس دور میں بھی‘۔(سورۃ حج، آیت 78 )یعنی ہم تو اس کتاب کو ماننے والے ہیں جس کا کہنا ہے کہ نہ صرف تمہارا نام اللہ نے مسلم رکھا بلکہ تم سے پہلے آنے والے رسولوں کی امتوں کانام بھی اس نے مسلم ہی تجویز کیا تھا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
’ابراہیم نہ یہود تھے نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک سچے وفادار اور کھرے مسلمان تھے‘۔(سورۃ آل عمران، آیت 67 )
اب ذرا غور فرمائیے جو دین یہ سکھاتا ہو کہ حضور ﷺ کے ماننے والوں کی طرح ان سے پہلے انبیاء اور رسولوں کو ماننے والے سب مسلمان ہیں اور بھائی بھائی ہیں اس دین کے اندر رہنے والوں کی شناخت کیا مسلم کے سوا کچھ ہو سکتی ہے؟ کچھ نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلم رکھا تھا تم اپنے کو شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، سلفی کیوں کہتے تھے؟ اگر قیامت میں ان فرقہ پرستی کے علمبرداروں سے یہ پوچھا گیا تو وہ کیا جواب دے سکیں گے؟
غالباً قرآن مجید کی کوئی سورت اس بات کی یاددہانی سے خالی نہیں کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کدھر جانا ہے اور کیا ہمیں کرنا چاہئے اور کیا ہمیں نہیں کرنا چاہئے، کامیابی اور فلاح کا راستہ کیا ہے، ناکامی اور بربادی کے راستے کون سے ہیں؟ دن رات ہم قرآن پڑھتے ہیں، سنتے ہیں لیکن ہماری عقل پر، دماغ اور دل پر تعصّبات نے حرص و طمع نے، حسد اور بغض نے، کینہ پروری نے، تکبر اور خود غرضی نے پردے ڈال رکھے ہیں۔ ہمیں قرآن میں وہی نظر آتا ہے جو ہم تعصب کی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن پڑھنے اور سننے کے باوجود ہم اپنی گمراہی میں ڈوبے رہتے ہیں بلکہ ان گمراہیوں اور غلط کاریوں پر فخر کرتے ہیں۔حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ روئے زمین پر سب سے اچھی جگہ مسجد ہے، یہ وہ مقام ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی اور روحانی زندگی کی بڑی امتیازی علامت ہے۔ اس مقام سے ہی آفاقی انسانی اخوت اسلامیہ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، ہر مسجد کا ایک روحانی رشتہ مسجد حرام سے قائم ہے۔ مسجد میں جانے والا ہر مسلمان اس سمت میں کھڑا ہو کر اللہ کو یاد کرتا ہے جو اللہ کے گھر کی سمت ہے مگر افسوس ! صد افسوس! کہ اس مسجد کے تقدس کو ہم نے کس طرح پامال کیا ہے، آج ہم نے اس کو فرقہ پرستی کا مرکزبنادیا ہے۔
جو جگہ ہمارے آپس کے روحانی رشتوں کو مستحکم کرنے کے لئے بنائی گئی تھی اس سے ہم نے انتشار اور منافرت کا کام لیا۔ اب مسجدیں فرقوں کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں، یہ شیعوں کی مسجد ہے تو وہ سنیوں کی، یہ بریلویوں کی ہے اور وہ اہل حدیث کی۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مسجدیں سب کی سب اللہ کی ہیں: ’’اور بے شبہ سب مسجدیں اللہ کی ہیں‘‘ سورۃ جن، آیت 18 ۔ لیکن ہم نے اللہ کی مسجدوں کا کیا حشر کیا ہے؟ ہم نے ان کو اپنی گروہی، فرقہ وارانہ تفرقہ بازی کی علامت بنالیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بہت سی مسجدوں پر نمایاں طور سے لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ مسجد فلاں فرقہ کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دینی تعلیم کے اداروں کو بھی فرقوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ہر فرقہ کے مدارس الگ، ان مدارس کی تنظیم الگ، ان کے عہدیدار الگ، ان کی سرگرمیاں الگ تھلگ اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک فرقہ ہی پر بس نہیں ہوتا بلکہ ایک فرقہ کے اندر بھی کئی کئی گروہ بن جاتے ہیں اور مسلسل بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بستیوں میں بھی ایک فرقہ کی کئی کئی مسجدیں ہیں، متعدد مدرسے کھلے ہوئے ہیں۔ اس بات سے یہ بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ دین یا فرقہ کے بجائے محض ذاتی اغراض کی خدمت کے لئے کام ہورہا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک چھوٹی سی بستی میں کس کس فرقہ کی کئی کئی مسجدیں اور متعدد مدارس کھلے ہوں۔ ایک موٹی سی بات ہے کہ اگر وسائل کو یکجا کیا جائے تو ایک بہتر ادارہ وجود میں لایا جاسکتا ہے لیکن ایسا اکثر ہوتا نہیں۔ ایک محلہ میں، کبھی کبھی تو ایک ہی کوچہ میں ایک سے زیادہ مسجدیں اور مدرسے کھل جاتے ہیں۔ یوں کچھ لوگوں کی ذاتی اغراض تو پوری ہوتی ہوں گی مگر اسلامی اخوت، اتحاد اور یکجہتی کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ معمولی نقصان نہیں ہے۔ اس سے قوم کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ (باقی اگلے ہفتہ)۔