سوالات اور فیصلے

September 30, 2013

وزیر اعظم نواز شریف پورا ایک ہفتہ ملک سے باہر ساری دنیا کو اپنے نئے وژن اور ترقی اور اقتصادی انقلاب کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرنے کے بعد اب واپسی کے راستے میں ہیں یا ملک پہنچ چکے ہیں جہاں ان موضوعات سے ہٹ کر دوسرے گمبھیر سوالات ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ میاں صاحب نے نیویارک اور لندن میں طالبان سے بات چیت اور ملک میں فوجی قیادت کی تبدیلی جو اب شاید ایک ہفتے میں منظر عام پر آجائے گی جیسے موضوعات پر زیادہ بات نہیں کی، اپنی اقوام متحدہ کی تقریر میں انہوں نے طالبان سے مذاکرات کا ذکر صرف اس تنبیہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر کیا کہ ڈائیلاگ کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور نہ ہی خوشامد۔ فوجی قیادت میں تبدیلی پر تو وہ خود کچھ نہیں بولے مگر جب وال اسٹریٹ جنرل نے ان سے سوال کیا تو یہ کہہ کر ایک لائن کا جواب دیا کہ اس موضوع پر میں نے ابھی نہیں سوچا۔ لیکن طالبان سے بات چیت اور فوج میں تبدیلی دونوں وہ مسئلے ہیں جن پر پاکستان میں ہر خاص وعام سوچ رہا ہے، جن لوگوں کے مستقبل دائو پر لگے ہوئے ہیں وہ تو بہت حساس ہیں اور ہر بات کا غور سے جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ موضوع اتنے حساس ہیں کہ جب کچھ مہینے پہلے ایک نجی ٹی وی چینل نے ایک پروگرام کیا تو وہ پروگرام ہی چینل پر بند ہو گیا۔ پچھلے دنوں ایک اور چینل نے اس موضوع پر بات کی تو وہ اینکر صاحب یا تو خود ہی یا کسی کے کہنے پر چھٹی پر چلے گئے۔ جس دن نواز شریف دنیا بھر سے جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے والے تھے ایک پاکستانی پروگرام میں یہ انکشاف کیا گیا کہ جنرل کیانی کو مزید وردی میں رکھنے کیلئے ترقی دینے پر تقریباً فیصلہ ہو گیا ہے یعنی انہیں جنرل وائیں کی جگہ لگا دیا جائیگا جو 7اکتوبر کو فوج کو خدا حافظ کہہ دیں گے۔ تو اس طرح پورا ایک ہفتہ اور ہے سب واضح ہو جائیگا۔ مگر اندر کی کہانی کیا ہے اور جو لوگ ان حساس معاملوں میں ادراک رکھتے ہیں وہ کیا سوچ رہے ہیں یہ معلوم کرنا بھی ضروری تھا سو میں نے جتنے بھی حاضر اور سابق فوجی اور غیر فوجی حالات پر نظر رکھنے والے حضرات جن کی میری ای میل کی لسٹ میں نام تھے ایک کانفیڈینشل ای میل بھیج دی کہ بالکل ذاتی معلومات کیلئے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ نہ میں کسی کا نام لوں گا اور نہ کوئی ایسی بات لکھوں گا یا کہوں گا جس سے ظاہر ہو کہ کون کیا کہہ رہا ہے تو یوں سمجھ لیں ایک طرح کا oppinion poll ہی ہو گیا مگر خاص خاص لوگوں کی رائے کا۔ جو جوابات یا مشاہدات سامنے آئے وہ مگر مختصر نکتوں میں بیان کئے جائیں تو اس طرح ہوں گے اور یہ ان دونوں اہم سوالات کے بارے میں ہیں یعنی طالبان سے بات چیت اور فوج میں نئی قیادت۔ تقریباً متفقہ رائے ہے کہ طالبان سے بات چیت کے بارے میں کوئی سنجیدہ نہیں اور کوئی معنی خیز بات ہو ہی نہیں سکتی۔ فوج نے سیاسی قیادت کو پورا موقع دیا ہے کہ اپنی سی کوشش کر لیں مگر اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلے گا کہ طالبان کے کچھ گروہ بات چیت کرنے پر آمادہ ہو جائیں اور کچھ صاف انکار کر دیں۔ یہ تو اب واضح ہو ہی گیا ہے۔ پنجابی طالبان نے بات چیت کی حمایت کر دی تو ان کے امیر کو فاٹا والے طالبان نے ہٹا دیا لیکن وہ کہتے ہیں ہماری اپنی شوریٰ ہے تو یہ دراڑ تو پڑ گئی۔ پنجابی طالبان کو ویسے بھی وہ چھوٹ نہیں ہے جو فاٹا والوں کے پاس ہے۔ کچھ گروہ جن کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے فوراً ہی متحرک ہو گئے ہیں اور پے درپے بڑے حملے کر رہے ہیں جس میں ایک جنرل صاحب اور پشاور کے مسیحی چرچ کے علاوہ چارسدہ بس پر حملہ بھی شامل ہے اور اسی طرح کے مزید حملے بڑھ سکتے ہیں مگر بڑے طالبان یعنی حکیم اللہ محسود ان حملوں کی پوری طرح نہ ذمہ داری لے رہے ہیں نہ شامل ہیں۔ پھر مالاکنڈ کے طالبان نے تو کہہ دیا پاکستانی آئین کے اندر رہتے ہوئے کوئی بات نہیں ہو سکتی یعنی وہ پاکستان کو ہی نہیں مانتے تو اب ان سے کیا بات ہو سکتی ہے۔ دراصل طالبان کو خود معلوم نہیں وہ کیا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سیاسی جماعت تو ہیں نہیں اور امریکہ سے لڑتے لڑتے وہ پاکستانی فوج سے لڑنے لگے اور جب کامیابی ہوئی یا طاقت کا نشہ سر پہ چڑھنے لگا تو زیادہ پھیلنے لگے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اپنے علاقوں کے آزاد مملکت منوایا جائے یا اس بندوق کی اور دہشت کی خام طاقت کو کس کام میں لایا جائے۔ تو ایسی شرائط سامنے آنے لگیں کہ جو کوئی کبھی بھی نہ مان سکے اور الزام طالبان پر نہ آئے مگر حل ان کے پاس بھی کوئی نہیں۔ ہتھیار اگر پھینک دیئے تو پھر بات کرنے کو کیا رہ جائے گا اور سنے گا کون۔ چھوٹی چھوٹی امارات بھی نہیں بن سکتیں تو یہ 40 یا 50 مختلف جتھے اپنی اپنی قابض زمینوں پر موجود رہیں گے اور باقی دھندے چلتے رہیں گے جب تک سیاسی لوگ فوج کو مکمل صفائی کا گرین سگنل نہیں دیتے۔ دوسرے اہم موضوع یعنی فوجی قیادت میں تبدیلی پر زیادہ اور دلچسپ رائے کا اظہار کیا گیا۔1) )تقریباً سب لوگ سمجھتے ہیں جنرل کیانی اب مزید نوکری کرنے میں پر جوش نہیں۔ 2)) امریکی چاہتے ہیں کہ کیانی صاحب کو کسی نہ کسی شکل اور پوزیشن پر کم از کم ایک سال اور رکھا جائے ان کا افغانستان کے انخلا بخیروخوبی ہو جائے۔ 3)) دو صورتوں میں کیانی صاحب رہ سکتے ہیں اور تیسری صورت بھی سامنے آ سکتی ہے۔ دو میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں جنرل وائین کی جگہ دے دی جائے اور ان کے اختیارات میں اضافہ کر دیا جائے دوسرے یہ کہ ایک نیا عہدہ یعنی چیف آف ڈیفنس اسٹاف (CDS)جو امریکہ میں سب سے اہم ہوتا ہے وہ بنا دیا جائے (4)اگر کیانی صاحب بالکل تیار نہیں ہوتے تو انہیں امریکہ میں سفیر لگا دیا جائے اور اس لئے ابھی تک یہ جگہ خالی رکھی گئی ہے۔ 5))اگر فوج کو طالبان کے خلاف استعمال کرنا ہے تو ایک آزمودہ اور اس طرح کی جنگ میں تجربہ اور کامیابی حاصل کرنے والے جنرل کو نیا چیف بنانا ہو گا۔ اس سے زیادہ ابھی نہیں لکھا جا سکتا اور جو لوگ جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں۔ 6))طالبان کے خلاف شمالی وزیر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے ایک اور بھرپور قومی اسمبلی اور شاید نئی کل جماعتی کانفرنس کا فیصلہ درکار ہو گا۔ 7) )یہ فیصلہ لینا مشکل ہو گا کیونکہ عمران خان شامل نہیں ہونگے 8) )چند دنوں میں بیانات سے زیادہ فیصلوں پر نگاہ رکھیں اور تجزیہ کرتے وقت داخلی اور خارجی عوام کو بھی زیر غور رکھیں۔
یہ سارے نکتے سامنے آئے مگر ظاہر ہے کھل کر کوئی اپنی رائے نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوئی سرکاری یا غیر سرکاری بیان جاری کیا جا سکتا ہے مگر وہ کون سے سوال تھے جن کے جواب میں بہت ہی معتبر اور مقتدر حضرات نے اپنی رائے دینا مناسب سمجھا۔ سوالات کچھ یوں تھے۔ 1) )جو خبریں چل رہی ہیں کہ کیانی صاحب کو چیئرمین جوائنٹ اسٹاف بنا دیا جائیگا کتنی معتبر ہیں۔ 2) )کیا سب سے سینئر جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا جائیگا یا کچھ لوگ ریٹائر ہو کر گھر جائیں گے۔3) )وزیر اعظم نے اس سوال کا جواب نہ دیکر کہ کیا کیانی صاحب کو مزید توسیع دی جا رہی ہے کیا پیغام دیا ہے۔ 4))کیا امریکہ کا دبائو بھی کام کر رہا ہے 5)) کیا فوج طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کیلئے ذہنی اور فوجی طور پر تیار ہے۔ 6)) عمران خان کیوں بڑھ چڑھ کر بہت طالبان کی طرف داری کر رہے ہیں۔ 7) )کیا یہ سب کچھ جو ہونے والا ہے نئی بوتل میں پرانی شراب ہو گی یا پرانی بوتل میں نئی شراب۔
ان سوالوں کے جواب آپ بھی تلاش کریں یا مزید چند دن انتظار کر لیں۔