مطالبات اپنی جگہ، جمہوری آداب ملحوظ رکھیں

May 24, 2022

چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان اسلام آباد کی طرف جس لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا پچھلے دنوں ذکر کرتے رہے ہیں، اتوار کے روز انہوں نے پشاور میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اس کے شیڈول کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بدھ 25مئی کو سہ پہر تین بجے سری نگر ہائی وے پر ملیں گے اور اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرانے تک اسلام آباد میں رہیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف سمیت حکومتی حلقوں کی طرف سے پہلے سے آنے والے ان انتباہات کا اعادہ جاری ہے کہ انتشار، گڑبڑ اور خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ منطقی اعتبار سے دونوں نقطہ ہائے نظر ایک ہی سکے کے دو رُخ کہے جا سکتے ہیں۔ جمہوری نظام جہاں عوام اور سیاسی حلقوں کو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت، مطالبات یا احتجاج کے لیے پُرامن مظاہروں، جلسوں وغیرہ کی اجازت دیتا ہے وہاں تشدد، بدامنی، افراتفری ناشائستگی اور قانون شکنی قبول نہیں کرتا۔ آزادیٔ اظہار رائے اور مفادِ امن عامہ دونوں پہلوئوں کے حوالے سے قوانین، روایات اور آداب موجود ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔ وطن عزیز کی سیاست میں در آنے والی جذباتیت و انتہا پسندی میں اعتدال آنے کے امکانات اس حقیقت سے واضح ہیں کہ ایک جانب عدم اعتماد کے دھچکے سے متاثر عمران خان پولیس، بیوروکریسی اور فوج سمیت تمام اداروں سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے واضح کر رہے ہیں کہ ان کا مارچ پُرامن ہوگا۔ دوسری جانب بعض اخباری اطلاعات وفاق حکومت کی ابتدائی مشاورت کے حوالے سے اشارہ دے رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کا مارچ پُرامن رہا تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی البتہ پارلیمنٹ یا وزیراعظم ہائوس سمیت ریڈ زون میں احتجاج کی کوشش کی گئی تو قانونی آپشنز کے استعمال کا فیصلہ اتحادیوں کی مشاورت اور حالات دیکھ کر کیا جائے گا۔ سلامتی کمیٹی کےاجلاس اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آپشن استعمال کئے جانے کے اشارے بھی ہیں۔ جہاں تک بیانات کی گرما گرمی اور لہجوں کی تُندی کا تعلق ہے اس پر قابو پانے اور جمہوری آداب پر مبنی ایک وسیع میثاق پر افہام و تفہیم کے بارے میں ہمارے سیاسی و سماجی حلقوں کو، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے، سنجیدہ توجہ دینی چاہئے۔ دنیا کے متعدد ممالک نے آمریت، مطلق العنانیت، فسطائیت جیسے نظاموں کو رد کرکے مختلف النّوع جمہوریتوں کے جو نظام اختیار کئے ان کے منشور میں نظری اختلاف کے باوجود یہ نکتہ مشترک ہے کہ ہم قانون کی بالادستی، مشاورت اور عوام کے حقوق و انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان برطانوی طرز کی جس جمہوریت کا دعویدار ہے وہ ایسی شائستہ مزاجی کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ قانونی حدود میں رہتے ہوئے اظہار رائے کرسکیں اور اجتماعی دانش سے قومی مفاد میں بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ برطانیہ میں تمام فیصلے ’’تاجِ برطانیہ‘‘ کے نام پر ہوتے ہیں مگر ’’تاجدار‘‘ دارلعوام کے منتخب وزیراعظم کے فیصلوں پر مہر نفاذ لگانے کا پابند ہے۔ پارلیمانی جمہوریت متعلقہ شخصیات کے الفاظ، بیان اورلہجے میں بصیرت تدبر اور شائستگی کی متقاضی ہے۔ پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سمیت جن داخلی و بیرونی چیلنجوں سے دوچار ہے ان میں نظریاتی اور فروعی اختلافات کے باوجود یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی بقا و ترقی میں سب ہی کی بقا و ترقی مضمر ہے۔ وطن عزیز کو منجدھار سے نکالنے کے لیے مل جل کر کام کرنا سب کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ ان حالات ہم حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام حلقوں سے صرف مودبانہ گزارش کرسکتے ہیں کہ خدارا! ذاتی و گروہی انائوں کو پس پشت ڈال کرقوم و ملک کی فکر کریں۔