پنجاب: نیا بلدیاتی نظام

June 26, 2022

بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوری طرز عمل کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے اثرات ہمارے بلدیاتی اداروں پر بھی پڑے اور ملکی تاریخ کا آدھے سے زیادہ عرصہ یہ معطل رہے ۔ باقی حصہ تجربات کی نذر ہوگیا۔ جس سے آج خیبر سے کراچی تک کوئی شہر اور بستی ایسی دکھائی نہیں دیتی جسے مثالی نظام کا نمونہ بناکر پیش کیا جاسکے جبکہ صحت و صفائی ،فراہمی و نکاسئ آب ، پختہ گلیوں سڑکوں ، مراکز صحت، تعلیمی سہولتوں ،پبلک پارکوں، ٹرانسپورٹ، معیاری اور مقررہ قیمتوں پر اشیائے ضروریہ کی بلا تعطل ترسیل کو کامیاب بلدیاتی نظام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں کی خوشحالی کے پیچھے ان کا کامیاب بلدیاتی نظام کارفرما ہے۔ وطن عزیز کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کا انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد سندھ کے4 اضلاع میں ہائیکورٹ کا آج پولنگ کرانے کا حکم ہے جبکہ پنجاب میں نئی تاریخ کا تعین ہونے والا ہے ۔ صوبائی کابینہ نے جمعہ کے روز وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی صدارت میں اپنے اجلاس میں نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر یونین کونسل کےلئے آئندہ مالی سال میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ فیصلے کے مطابق صوبے میں 14 میونسپل کارپوریشنیں بنیں گی ۔ نوجوانوں، خواتین، کسان ، اقلیت اور معذوروں کی نشستوں کو یونین کونسلوں کی سطح پر دوگنا کردیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال یکم جولائی کو شروع ہونے کو ہے جس کےلئے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے ۔ مزید برآں چیک و بیلنس کے نظام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جانا چاہئے تاکہ عوام الناس تک بلدیاتی اداروں کے ثمرات بلا حدود و قیود بروقت پہنچ سکیں۔