امریکا نے 2017ء سے خفیہ قانون کے تحت دنیا میں 24 پراکسی جنگیں کیں

July 05, 2022

کراچی (نیوز ڈیسک) ایک غیر ملکی آن لائن جریدے کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا نے خفیہ طور پر ’’127E‘‘ نامی قانون کا استعمال کرتے ہوئے دنیا میں 2017ء سے لیکر تقریباً 24؍ پراکسی جنگیں شروع کیں۔ جریدے نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس معاملے سے آگاہ جرنیلوں سے بات چیت بھی کی گئی ہے اور ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جنہیں پہلے کبھی دیکھا گیا۔ دی انٹر سیپٹ نامی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت یہ دستاویزات حاصل ہوئی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ دستاویزات اپنی نوعیت کی پہلی واضح تصدیق ہیں کہ 127 ای قانون کے تحت 2020ء میں ایشیا پیسفک ریجن اور مشرق وسطیٰ میں 14؍ پراکسی جنگیں شروع کرائی گئیں جبکہ 2017ء سے 2020ء کے دوران اسی قانون کے تحت 23؍ مزید جنگیں شروع کرائی گئیں جن پر امریکی ٹیکس دہندگان کے 310؍ ملین ڈالرز خرچ کیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 127 ای ایسا قانون ہے جسے امریکی کانگریس نے منظور کرکے محکمہ دفاع کو یہ اختیارات دیے ہیں وہ یہ جنگیں شروع کر سکے۔ دو دہائیوں سے اس قانون کے تحت امریکی کمانڈوز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں بغیر کسی بیرونی نگرانی کے غیر ملکی اور بے قاعدہ (Irregular) شراکتی قوتوں کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کریں۔ اس پروگرام کے تحت امریکی حکام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ غیر ملکی قوتوں کو اسلحہ فراہم کریں، انہیں تربیت دیں اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کریں۔ تاہم، روایتی غیر ملکی معاونت پروگرام (جس میں پارٹنر ممالک میں مقامی فورسز کی قوت اور استعداد میں اضافے پر توجہ مرکوز ہوتی ہے) کے برعکس 127ای کے تحت رضاکارانہ فورسز سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امریکی احکامات پر عمل کریں اور واشنگٹن کی فراہم کردہ ہدایات اور مشنز پر عمل کریں اور امریکی دشمنوں کا خاتمہ کرکے امریکی مقاصد حاصل کریں اور لازماً امریکا کی پراکسی فورس کے طور پر کام کریں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس یا محکمہ خارجہ کو ان آپریشنز کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ عمومی طور پر یہ بات سامنے نہیں آتی کہ یہ آپریشنز کہاں کیے گئے، ان کی فریکوئنسی، اہداف حتیٰ کہ غیر ملکی قوتوں کی شناخت کیا ہے۔ اس پروگرام کے نقادوں نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کے اس اقدام کی وجہ سے غیر متوقع عسکری جارحیت پیدا ہو سکتی ہے اور امریکا دنیا بھر میں درجن بھر تنازعات میں پھنس سکتا ہے کیونکہ 127ای قانون کے تحت ہونے والی کارروائیوں پر کسی کی نظر ہے اور نہ خارجہ امور سے تعلق رکھنے والے حکام کو باخبر رکھا جاتا ہے او رنہ ان سے رائے لی جاتی ہے۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات رکھنے والے امریکا ک ےسرکاری حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ کانگریس کے بیشتر ملازمین کو 127ای کی رپورٹس کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں اور جنہیں یہ اختیار ہے وہ شاذ و نادر ہی رپورٹس طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام ڈیزائن ہی اس انداز سے کیا گیا ہے کہ اس پر کسی کی نگرانی نہ ہو۔ امریکی فارن پالیسی تھنک ٹینک کے شریک بانی اسٹیفن سیملر کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کی ترجیح ہے کہ وہ ایسے آپریشنز کرتا رہے جس کی نگرانی نہ ہو، اس پر بیوروکریسی یا کانگریس اپنی رائے پیش نہ کرے اور یہ آپریشنز وہ برسوں سے کر رہا ہے۔