القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کا قتل

August 13, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

امریکی دبائو پر جب القاعدہ قیادت کو ایک مرتبہ افغانستان سے نکلنا پڑا تو انہوں نے سوڈان کو اپنا مسکن بنایا۔ مصرکے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے وہاں مختلف تنصیبات کو ہدف بنانا آسان تھا جو الظواہری کا اصل مدعا رہا اور پھر 7اگست 1998کو تو ان لوگوں نے حد ہی کر دی ۔دارالسلام تنزانیہ اور کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں موجود امریکی سفارت خانوں پر ایسے ہولناک حملے کئے جنہوں نے امریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مرنے والے اگرچہ دو سو سے زیادہ لوگوں میں امریکی چند ایک ہی تھے اور زخمی ہونے والے ہزاروں میں بھی امریکیوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر اسے نائن الیون کی اولین ریہرسل کہا جا سکتا ہے، اس کے بعد ان لوگوں نے افغانستان کو اپنی جہادی سرگرمیوں کے لئےکس طرح اپنی آماجگاہ بنایا اور طالبان حکومت نے ان کو کس طرح ڈھال فراہم کی، نائن الیون کا بدترین سانحہ کیسے رونما ہوا ،تورا بورا کے منظر نامے سے گزر کر ہم کابل کے درختوں میں گھرے ایک محفوظ تین منزلہ مکان کی بالکونی کا نظارہ کر سکتے ہیں کہ 31جولائی کے روز امریکی ڈرون میزائل نے کس طرح القاعدہ کے موجودہ امیر 71 سالہ ایمن الظواہری کونشانہ بنایا ؟

ایمن الظواہری کے قتل کے ساتھ ہی چند سوالات پیدا ہو گئے۔ اول:یہ کہ یہ ڈرون یا میزائل کہاں سے فائر ہوا؟ کیا یہ پاکستانی فضائی حدود سے بھی گزرا؟ دوم: یہ کہ 2مئی 2011 کے بعد جب بن لادن کو ایبٹ آباد پاکستان میں مارا گیا اور جون 2011 میں ایمن الظواہری کی امارت کیلئے باقاعدہ بیعت کی گئی تو تب سے لے کر پورے گیارہ برسوں تک یہ نامی گرامی امریکہ کو مطلوب شدت پسند جس کے سر کی قیمت امریکیوں نے 25 ملین ڈالریا ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر رکھی تھی، کہاں روپوش رہا؟خیال رہے کہ افغانستان میں دو دہائیوں تک امریکہ کے اتحادی افغانوں کی حکومت قائم رہی؟ سوئم: یہ کہ کیا طالبان یا ان کے کسی گروپ نے اپنے مفادات کے تحت دوحہ معاہدے کے برعکس اسے مروانے میں امریکی سکیورٹی ایجنسیوں سے کسی نوع کا تعاون کیا، جیسا کہ زلمے خلیل زاد نےبھی اس حوالے سے اشارہ کیا ہے۔ چہارم:کیا آنے والے دنوں میں طالبان دوحہ معاہدے کے برعکس القاعدہ یا داعش کی جانب دست تعاون بڑھائیں گے نیز کیا پاکستان کیلئے بھی اس حوالے سے مسائل پیدا ہونے والے ہیں؟

افغان سرزمین سے اگرکوئی بھی دہشت گرد گروہ ہمارے خطے میں اس نوع کی کوئی کارروائی کرتا ہے چاہے وہ داعش یا ٹی ٹی پی ہی کیوں نہ ہوہمیں اس شر سے تحفظ کےلئے امریکی معاونت ملنی چاہئے مگر کیا کریں، ہمارا اندازِ فکر مثبت نہیں رہا بلکہ بہت زیادہ منفی ہو چکا ہے کہ اشرف غنی کی امریکی اتحادی حکومت کا طالبان کے ہاتھوں خاتمہ ہوا تو ہمارے اس وقت وزیر اعظم نے فوری طور پر یہ بیان دینا ضروری جانا کہ افغانستان میں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں۔ خدا کے بندو کس غلامی کی زنجیریں ٹوٹی ہیں؟ الٹے وہ دن اور آج کا دن افغانستان کے آزادی پسند عوام شدت پسندوںکے نظریۂ جبر کےباعث خوف اور دہشت کی بدترین گھٹن کا شکار ہیں..... بھوک ،ننگ اور مہنگائی اس کے سوا ہے۔

بہرحال افغان عوام بالخصوص افغان خواتین کی موجودہ صورتِ حال امریکی صدر بائیڈن کے لئے بھی باعث شرم و ندامت ہونی چاہئے کہ ان کی انتظامیہ نے اپنی 20 سالہ جدوجہد پر جس شتابی کے ساتھ پانی ڈالا، وہ افسوسناک ہے اور امریکہ سے ہمدردی کی توقع رکھنے والے افغان عوام کے دکھوں کا ادراک امریکی قیادت کو ہونا چاہئے جیسا کہ بظاہر انہوں نے کہا بھی ہے کہ ہم افغان عوام کے انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور بچوں کے حقوق کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔اسکے ساتھ ہی امریکی ڈورن ٹیکنالوجی میں جو مزید ترقی وبہتری آئی ہے یہ نہایت خوش آئند ہے۔ یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ امریکی ڈرون جس عمارت میں اپنے ہدف سے ٹکرایا تو کوئی بے گناہ اس کی زد میں نہیں آیا حالانکہ اس ایمن الظواہری کے خاندان کےلوگ اس گھر میں موجود تھے کیوں کہ ڈرون میں کسی نوع کا بارود نہیں تھا بلکہ 6عدد تیز بلیڈ استعمال کئے گئے تھے۔ پاکستان کا یہ مؤقف بھی درست ثابت ہوا ہے کہ ڈرون نہ تو پاکستان سے اڑا نہ ہی اس کی فضائی حدود استعمال ہوئی کیوں کہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ کرغزستان سے اڑا۔ رہ گئے طالبان تو انہوں نے بجائے شرمندگی کے امریکہ پر اس واقعہ کی ذمہ داری عائد کی ہے کہ اس نے ان کی سرزمین پر یہ کارروائی کیوں کی ہے اگر آئندہ ایسا ہوا تو وہ جوابی کارروائی کریں گے۔ کاش عظیم مصری صدر انور سادات کا قاتل ایک سرجن ڈاکٹر کی حیثیت سے آنکھوں کی روشنی بانٹتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔