چین و امریکہ میں ثالثی کی پیش کش

August 18, 2022

چین اور امریکہ میں ثالثی کی پیش کش پاکستان کے اس طرز فکر کی مظہر ہے کہ کشیدگی یا سرد جنگ کی کیفیت کرہ ارض کے مفاد میں نہیں۔ اس موقف کا اظہار وزیر اعظم شہباز شریف نے ممتاز امریکی جریدے کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر سرد جنگ یا بلاک کی سیاست میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی ،بڑی طاقتوں کی آپس کی دشمنی، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو درپیش اقتصادی اور سماجی چیلنجز میں مزید اضافہ کرے گی۔واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان پچھلے دنوں سے آنے والے سخت بیانات چین کی جنگی مشقوں، امریکی اقدامات سمیت متعدد واقعات کے تناظر میں وزیر اعظم نے پیش کش کی ہے کہ امریکہ اور چین چاہیں تو تائیوان کے معاملے پر ان میں اختلافات ختم کرانے کے لئے اسلام آباد مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان کی یہ پیش کش ایک لحاظ سے نصف صدی قبل کی ان کوششوں کے مثبت نتائج و اثرات کو مستحکم رکھنے کی خواہش کی مظہر ہے جن کے نتیجے میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دورہ چین کی صورت میں بیجنگ اور واشنگٹن کا پہلا رابطہ ہوا اور عالمی سطح پر کئی مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ وزیر اعظم نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے ،اسلام آباد کے ساتھ چین امریکہ اور دیگر دوست ممالک کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاک چین تعلقات بہت خاص ہیں، دوسری جانب اسلام آباد اور واشنگٹن نے دیرینہ تاریخی اور دو طرفہ تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے جو باہمی دلچسپی کے تمام امور کا احاطہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی سوچ اور زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات سے خطے میں امن و استحکام کے ساتھ ترقی اور رابطہ کاری کو فروغ مل سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے درست نشاندہی کی کہ سرد جنگ کی صورت میں یا کسی اور عنوان سےدنیا کی تقسیم کووڈ 19جیسے وبائی امراض اور یوکرین کے بحران سے متاثرہ عالمی معیشت کے لئے سنگین نتائج کی حامل ہو گی ۔ اس منظر نامے میں،کہ روس یوکرین جنگ پاکستان سے ملحق خطے میں جاری ہے، ایک طرف اس کے اثرات تیل ،گیس اور غذائی اشیا کی قلت کی صورت میں پاکستان کو سنگین طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ بات مدنظر رکھنے کی ہے کہ جنگوں کے مختلف النوع اثرات لہروں کی مانند پھیل کر دور تک پہنچتے ہیں۔ افغانستان میں ،جہاں وزیر اعظم کے الفاظ میں عالمی برادری کے خدشات سے نسبتاً تسلی بخش انداز سےنبٹا گیا ،اقوام متحدہ کے نائب خصوصی نمائندے رمیزالا کبروف کے بموجب لاکھوں شہری بھوک کے دہانے پر ہیں، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے سماجی و اقتصادی شعبوں میں مدد دی جائے۔ اس کیفیت میں امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان کی 3.5ارب ڈالر کی منجمد رقم موجودہ افغان حکومت کو جاری نہ کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور خطے کے ملکوں کے ساتھ مل کر علاقے میں دہشت گردی روکنے کے منصوبے مثبت طور پر آگے بڑھانے چاہئیں۔ علاقائی منظر نامے میں اچھی بات یہ ہے کہ روس نے یوکرین کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ بصورت دیگر امریکی ریاست نیو جرسی کی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے بموجب 5۔ ارب افراد کی ہلاکت کےخدشات ہیں ۔دنیا کی دو تہائی آبادی کو آگ کے طوفانوں، دھویں ،سورج کی روشنی زمین پر نہ آنے، فصلیں تباہ ہونے اور عالمی قحط کی صورتحال سے بچانے کی تدابیر کی جانی چاہئیں، مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اس باب میں نہ صرف اقوام متحدہ کے آئندہ ماہ منعقد ہونے والے جنرل اسمبلی اجلاس میں آواز اٹھائی جائے بلکہ اس سے پہلے ہی سلامتی کونسل کے بھی خصوصی اجلاسوں میں بھی غورو خوض شروع کیا جائے۔