کنگڈم کو ہسٹری میں جینا چاہئے؟

September 29, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

پھر وہ وقت بھی آیا جب کنگ نے ریڈیو پر آ کر اعلان کردیا کہ میں جس خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہوں ،ضرور کروں گا اس لئے میں تختِ برطانیہ سے انصاف نہیں کرسکوں گا، یوں اس نے تخت سے دست بردار ہو کربقیہ زندگی اپنی محبوبہ کے ساتھ فرانس میںگزار دی۔ نتیجتاً کنگ ایڈورڈ viii کے چھوٹے بھائی اور کوئین الزبتھ کے والد پرنس البرٹ جارج vi کے نام سے 11 دسمبر 1936 کو کنگ بنائے گئے، اس وقت پرنسس الزبتھ کی عمر محض دس برس تھی اور وہ دو بہنیں تھیں الزبتھ بڑی تھی اور مارگریٹ چھوٹی۔ ان کی تعلیم وغیرہ کا بندوبست مادر ملکہ کی نگرانی میں گھر پر ہی کیا گیا۔

یہاں یہ واضح رہے کہ کوئین وکٹوریہ کی 22 جنوری 1901 کو وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے ایڈورڈ vii تخت کے وارث بنے اور 6مئی 1910 کو ان کی وفات کے بعد انکے بیٹے، کوئین وکٹوریہ کے پوتے اور کوئین الزبتھ کے دادا جارج v کنگ بنائے گئے جو جیسے کہ اوپر بیان کیاگیا ہے، 20جنوری 1936 میں اپنی وفات تک کنگ رہے۔ قریباً 66کنگز یا کوئنز میں سے کوئین وکٹوریہ الیگزنڈریہ کی 63سالہ حکمرانی کا ریکارڈ تھا لیکن اب سب سے زیادہ طویل 70سالہ حکمرانی کا اعزاز کوئین الزبتھ کو حاصل ہوگیا ہے اور ان کے بیٹے کنگ چارلس iii کی تخت نشینی اور ان کے بیٹے پرنس ولیم کی کرائون پرنس کی حیثیت سب پر واضح ہے۔

کنگ چارلس کا نام آتے ہی ہر دلعزیز پرنسس ڈیانا کا نام ذہن میں آ جاتا ہے، جس کے بیٹے پرنس ولیم کو شاید بہت سے لوگ چارلس کی بجائے کنگ دیکھنا چاہتے تھے۔ پرنسس ڈیانا کی ہلاکت کو ربع صدی گزر چکی ہے لیکن شاید یہ ان کی دلفریب خوبصورتی کا سحر ہے، طبیعت کی سادگی ہے یا رفاہی و فلاحی کاموں میں دلچسپی و انہماک، لوگ آج تک انہیں نہیں بھولے بلکہ کوئین الزبتھ کے مرنے پر دبے لفظوں میں احتجاج کیا کہ پرنسس ڈیانا کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا گیاتھا یا ساس بہو کی روایتی چپقلش تھی کہ کوئین یا رائل فیملی ڈیانا کے سوگ میں اس وقت شامل ہوئی جب میڈیا کے ذریعے ان پر شدید دبائو پڑا ا ور پرائم منسٹرٹونی بلیئر نے بھی انہیں اس طرف متوجہ کیا تب کوئین نے میڈیا کے سامنے تعزیتی بیان دیتے ہوئے ڈیانا کی بے وقت موت کو اپنا دکھ یا سوگ قرار دیا۔

برٹش یا رائل فیملی جن بلند اخلاقی اصولوں اور معیارات کی دعویدار ہے ، اس کے اپنے ارکان اکثر و بیش تر ان پر پورا اترنے سے قاصر رہے ہیں، اس لئے میڈیا بھی ایسے معاملات کوخوب اچھالتا رہا ہے اور پھر جمہوری ذہن والے لوگ بھی بالعموم شاہی آداب یا رکھ رکھائو ہی نہیں بلکہ شاہی طرز زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ کو بھی عیاشی و فضول خرچی کے معنوں میں لیتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ بھی ہے کہ گریٹ برٹن اور اس کے فلاسفر ایک طرف تو نسل پرستی کو حقارت سے دیکھتے ہوئے ناک بھوں چڑھاتے ہیں تو دوسری طرف رائل فیملی کی نسلی پیورٹی پر اس قدر زور ہے اور پھر اکیسویں صدی کے تابناک جمہوری دور میں ایک خاندان کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ابدی و آئینی طور پر یوں مسلط رہے۔چاہے اس کی ہزار سال سے طویل تاریخ ہی کیوں نہ ہو، چاہے ان کے آباء کی غیرمعمولی قربانیاں ہوں۔(جاری ہے)