کلیئرنس نہ ملنے سے پورٹس پر 2 ہزار کے قریب شپمنٹ پھنس گئیں

October 07, 2022

کراچی ( سہیل افضل)حکومت کی جانب سے کسٹمز ٹیرف چیپٹر 84 اور 85 کی درآمدات پر پابندی سے ایک جانب ملک کی انڈسٹری کو بندش کا سامنا ہے تو دوسری جانب کروڑوں روپے کا زرمبادلہ ڈیمرج اور ڈیٹینشن کی شکل میں باہر جا رہا ہے ،مختلف پورٹس پر 2 ہزار کے قریب شپمنٹ کلیئرنس نہ ملنے سے پھنسی ہوئی ہیں ۔ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئےصنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر مشینری اورمشینوں کے پرزہ جات نہیں آئیں گے تو انڈسٹری کا بتدریج بند ہونا لازم ہے ، کچھ سیکٹرز نے تو پروڈکشن کم یا پلانٹ بھی بند کر دیئے ہیں ، حکومتی فیصلے سے کمرشل امپورٹرز دیوالیہ ہو رہے ہیں ،نئے وزیر خزانہ اس جانب بھی توجہ دیں ۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں ڈالر کی قلت کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے اسٹیٹ بینک کے فارن ایکس چینج ڈپارٹمنٹ ( ایف ای او ڈی ) نے 5 جولائی کو جاری ایک سرکلر کے ذریعےکسٹمز ٹیرف چیپٹر 84اور 85 کی درآمدات کے لئے ادائیگی اپنی منظوری سے مشروط کر دی ہے ،ایف ای او ڈی کی اس شرط کے بعد کمرشل بینک درآمد کنندگان کو ڈالر دینے سے گریزاں ہیں، اس سرکلر سے ہر قسم کی پلانٹ اور مشینری ،کیپٹل گڈز اور خام مال وغیرہ کی درآمد بند ہو چکی ہے مختلف پورٹس پر 2 سے3ہزار کے قریب کنسائمنٹ کو 3 ماہ سے کلیئرنس نہیں ملی،درآمد کندگان کو اس پر روزانہ کی بنیاد پربھاری ڈیمرج اور جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے ،ذرائع کے مطابق ایف پی سی سی آئی اور اسٹیٹ بینک کے درمیان اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کئی میٹنگ ہو چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے ،درآمدکندگان اور صنعت کاروں کی تجویز پر اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اگر درآمد کندہ 3ماہ کی تاخیر سے رقم ادائیگی کا یقین دلائے اور بینک کو لکھ کر دے تو اس کی کنسائمنٹ کلیئر کر دی جائے گی، بینکوں نے اس تجویز کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے ،اس مقصد کے لئے بھی اسپیڈ منی کا نظام متعارف کرا دیا ہے جس کا ریٹ 5لاکھ تک بتایا جاتا ہے ۔اسٹیٹ بینک کے ساتھ میٹنگ میں شریک ایک صنعت کار نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے اس تجویز کا کوئی سرکلر تو جاری نہیں کیا البتہ انھیں یہ بتایا گیا کہ تمام بینکوں کو ای میل کر دی گئی ہے ،اب بینک عملے نے جس کا کام نہیں کرنا ہوتا اسے یہ کہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ انھیں ایسی کوئی ای میل نہیں ملی ،درآمد کند گان کا موقف ہے کہ کچھ کو تو2 روز میں کلیئرنس مل رہی ہے تو کسی کو 25 سے 30 روز میں بھی کلیئرنس نہیں مل رہی ،صنعت کاروں اور تاجروں نے الزام لگایا ہے کہ اسٹیٹ بینک کا عملہ بھی اس طرح کے معاملات میں ملوث ہے تاخیر سےکلیئرنس کی وجہ سے شپنگ کمپنیاں درآمد کنندگان سے بھاری ڈیمرج اور دیگر جرمانے وصول کر کے اپنے پیرنٹس آفس کو بھیج رہی ہیں، سب سے زیادہ پریشان وہ صنعت کار ہیں جن کے کنسائمنٹ پورٹ پر پہنچ چکے ہیں اور ان کو بیرون ملک سے سامان بھیجنے والے رقم کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن وہ انھیں رقم موجود ہونے کے باوجود بھیج نہیں سکتے ،کیش انگیسٹ ڈاکومنٹ (سی اے ڈی) کےتحت مال منگوانے والے صنعت کاروں کا موقف ہے کہ بروقت ادائیگی نہ ہونے سے ان کےکلائنٹ ناراض ہو رہے ہیں اور وہ ملک کے مفاد میں انھیں یہ بھی بتانے سے گریزاں ہیں کہ انھیں ڈالر نہیں مل رہے ۔