ملکی سیاست: بلیک لسٹ، وائٹ لسٹ

October 29, 2022

وقت آگیا ہے کہ سیاست،عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے منسلک وطن دوست حلقے اس بات پر سنجیدگی سے غورکریں کہ اب تک چند عناصر نے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے ان کااحتساب کیسے کیاجائے؟اگر اب بھی، اس سلسلے میں ذمہ داروں اوراہلکاروں کی طرف سے ٹھوس آئینی، قانونی اور انتظامی اقدامات نہ کئے گئے تو پھر پاکستان کاخداہی حافظ ہے۔

میرے ذہن میں یہ سوال اس وقت اٹھا جب ہفتہ 22اکتوبر کو لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اعلیٰ عدلیہ سے تعلق رکھنے والی ایک انتہائی قابل احترام شخصیت ‘سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پارلیمنٹ کے کچھ ارکان اور بار ایسوسی ایشن کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں کی تقریریں سنیں۔

خاص طورپر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں یہ نہایت اہم تجویز دی کہ’’ اداروں کے بجائے آئین توڑنے والے آمروں اور غلط فیصلہ دینے والوں پر نام لے کر تنقید کریں ۔‘‘یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج کل کچھ سیاسی حلقے آئین توڑنے والے، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے یا غلط فیصلہ کرنے یا دینے والوں کے بجائے اداروں پر بے جا تنقید کرتے نظرآتے ہیں۔ اس سلسلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چند مثالیں بھی دیں۔ مثال کے طورپرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلا دلچسپ انکشاف یہ کیا کہ’’ جنرل ایوب پاکستان کا پہلا جنرل تھا جس نے پلاٹ مانگا۔‘‘

انہوں نے مزید انکشاف یہ کئے کہ’’ ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد نے آئین کو تحلیل کیا لیکن وفاقی کورٹ نے آئین کو تحلیل کرنے کے احکامات کو برقراررکھا ۔آئین پر دوسرا حملہ 1956ء میں اسکندر مرزا اورجنرل ایوب نے کیا مگر جسٹس منیر نے اس حملے کو بھی جائز قراردیا ۔‘‘ اس مرحلے پر میں یہ یاددہانی کرواتا چلوں کہ ملک غلام محمد نے آئین کو تحلیل کرنے والی کارروائی پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے کی۔

ملک غلام محمد کس حیثیت میں پاکستان کا گورنر جنرل بنا اور اسے کس آمر کے حکم پر پاکستان کا گورنر جنرل بنایا گیا؟یہ باتیں بھی کم غیر آئینی نہیں کہ انہوں نے بغیر کسی آئینی اور قانونی جواز کے خواجہ ناظم الدین، جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور وزیرا عظم لیاقت علی خان کے شہید ہونے کے بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم بنائے گئے تھے.

کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان اورمغربی پاکستان کے درمیان فاصلے پیدا ہونا شروع ہوئےبعد میں ایک اورکارروائی کرکے مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کوختم کرکے ون یونٹ بنایاگیا اوراس بنیاد پر ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کا ملکی وسائل میں 50-50فیصد حصہ رکھاگیا۔ ورنہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے سارے صوبوں سے زیادہ تھی۔

بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں اس سلسلے میں مزید انکشاف یہ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1973کامتفقہ آئین منظورکیا گیا مگرجنرل ضیاالحق نے اس آئین کو مارشل لاکے ذریعے دفن کردیا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ اس کے بعد آئین پر حملہ جنرل پرویز مشرف نے کیا جس کی عدلیہ نے تائید کی۔

ان حقائق کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیٹف کی طرز پر اگرپاکستان میں بلیک لسٹ اور وائٹ لسٹ بنائی جائے تو وہ جسٹس منیر‘ جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن کو بلیک لسٹ میں ڈالیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اس تقریر میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دیئے جانے کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی مگر اس کا فیصلہ اب تک نہیں سنایاگیا۔

کیا یہ مناسب نہیں کہ ماضی میں حکمرانوں یا اعلیٰ ججوں کی طرف سے جو غلط فیصلے ہوئے ، ان اقدامات اور فیصلوں کی تحقیقات کرکے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں ۔

جہاں تک سپریم کورٹ میں بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن کا معاملہ ہے تو یہ عدلیہ کے ریکارڈ میں موجود ہوگی۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ موجودہ حکومت جو کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے، ایک عدالتی کمیشن بناکر یہ کیس اس کے حوالے کر ے اور وہ جائزہ لیکر فیصلہ دے کہ ایسا کیوں کیاگیا؟میرے خیال میں موجودہ حکومت ان ایشوز کی بھی تحقیقات کا حکم دے کہ ون یونٹ کیوں بنایاگیا؟

خواجہ ناظم الدین کو کیوں ایک رات کے اندر وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ۔میں پھر اس معاملے کی جانب آتاہوں کہ پاکستان میں بھی فیٹف کی طرز پر کوئی ادارہ یا تنظیم قائم کی جائے اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کرکےاس بات کو شامل کیاجائے کہ اب ان ’’حلقوں ‘‘ کی بلیک لسٹ بنائی جائے جو غیرآئینی ‘غیر جمہوری اور غیرقانونی فیصلے کرتے رہےہیں ۔اس لسٹ کے تین حصے ہونے چاہئیں۔ ایک حصے میں ان سیاستدانوں کے نام شامل کئے جائیں جو غیرآئینی ‘غیرقانونی اور غیر جمہوری اقدامات کرتے ہیں اور یہ ثابت ہوجاتا ہے ۔

دوسری فہرست میں ان ججوں کے نام شامل کئے جانے چاہئیں جو آئین اور قانون سے ماورااورانصاف سے مبرافیصلے کرتے ہیں ۔ بلیک لسٹ کے تیسرے حصے میں ان جرنیلوں کے نام شامل کئے جائیں جو آئین اور قانون کی توہین کرنے جیسے اقدامات کرتے اورجمہوریت کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کیلئےخاص طورپرمیں سینیٹر میاں رضا ربانی ‘ سینیٹر تاج حیدر‘ ایم این اے یوسف تالپور اور ایسے دیگر ایم این ایز اور سینیٹروں سے درخواست کروں گا کہ وہ فوری طور پر اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیں۔

علاوہ ازیں میری سپریم کورٹ بار اور ملک کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنوں سے بھی درخواست ہے کہ عوام آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ براہ کرم ملک اور جمہوریت کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے متحرک ہوکر پارلیمنٹ سے یہ قانون پاس کرائیں۔ (جاری ہے)