سپہ سالار اور اہلیت

November 18, 2022

عمران خان کے فرلانگ مارچ کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم سپہ سالار کی تعیناتی تھی۔ جس پر ’’فی الحال‘‘ انہوں نے حسب عادت یوٹرن لے لیا ہے۔ لیکن کل ان کا موقف کیا ہوگا اس کا کوئی پتہ نہیں۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی پر پیچھے ہٹ گئے ہیں پھر بھی ان کا موقف یہ ہے کہ یہ تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہئے۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ آرمی چیف پاک فوج کا سپہ سالار ہوتا ہے اور پاک فوج میں تمام جرنیل میرٹ پر ہی ہوتے ہیں۔

پاک فوج کی اعلیٰ قیادت سے چند نام طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم کو بھیجے جاتے ہیں اور ان میں سے وزیراعظم اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک نام کی تعیناتی کی منظوری دیتے ہیں جوکہ وزیراعظم کا آئینی حق اور اختیار ہے۔ جہاں تک عمران خان کے موقف کا تعلق ہے تو یہ خود ان کو بھی نہیں معلوم کہ آرمی چیف کی تعیناتی اہلیت کی بنیاد پر ہونے سے ان کی کیا مراد ہے۔

کیا انہوں نے آئین اور قواعد و ضوابط سے ہٹ کر اپنا ایک الگ معیار مقرر کیا ہوا ہے۔ جو ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا ان کی کوئی مخصوص خواہش ہے جس کو وہ میرٹ سمجھتے ہیں یا وہ اس معاملہ کو بھی متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

عمران خان نے اپنے اقتدار کے خاتمے سے اب تک اپنی سیاست کی بنیاد جن معاملات کو بنایا اور اپنے کارکنوں کو ان معاملات پر گمراہ کرتے رہے تقریباً ان سب پر وہ ایک ایک کر کے یوٹرن لے چکے ہیں۔ چونکہ وہ تمام نکات جن کو انہوں نے احتجاج اور جلسے جلوسوں کا محور بنایا تھا وہ سب بے بنیاد اور غلط بیانی پر مبنی تھے۔

نام نہاد سائفر، امریکی سازش، روس کا دورہ، پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں بدتمیزی اور بدتہذیبی کے کلمات، پاک فوج میں بغاوت کرانے، عوام میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو بدنام کرنے اور عوام کو بدظن کرنے، فوری الیکشن کرانے اور اہم ترین ادارے کے بعض اعلیٰ افسران پر وزیر آباد ’’واقعہ‘‘ میں ملوث ہونے کا مذموم اور گمراہ کن الزام لگانے کے ساتھ ساتھ اہم ترین تعیناتی کو متنازعہ بنانے کے علاوہ اور کونسی بات رہ گئی ہے جس پر عمران خان نے یوٹرن نہیں لیا اور مذکورہ باتوں کے علاوہ کونسی بات رہ گئی ہے جس پر انہوں نے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کی، نظر تو یہی آتا ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ اہم ترین اداروں کو کمزور کرنے اور اہم ممالک سے تعلقات کو خراب کرنے کی کوششوں کا مطلب ملک کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ عمران خان کا کوئی پتہ نہیں کہ مذکورہ باتوں میں سے کونسی بات پر دوبارہ یوٹرن لے لیں۔

ذرائع کے مطابق وہ آرمی چیف کی تعیناتی پر کسی بھی وقت ایک بار پھر یوٹرن لے سکتے ہیں۔ کیونکہ اب ان کے پاس اپنے ورکرز کو گمراہ کرنے کیلئے نہ کوئی نعرہ ہے اور نہ ہی اب ان کی پٹاری میں کوئی سانپ رہا ہے۔

اقتدار کے دنوں میں عمران خان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جتنی تعریفیں کیا کرتے تھے وہ سب ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اقتدار سے ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق محرومی کے بعد پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں نازیبا کلمات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں اور وہ الزامات بھی جو وہ لگایا کرتے تھے۔ پھر بیک ڈور رابطے اور منت ترلے بھی انہی سے کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

یہ ان کا پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں دوسرا یوٹرن تھا۔ ان رابطوں اور کوششوں میں ناکامی اور غیر آئینی مطالبات ماننے سے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے صاف انکار کے بعد پھر تیسرا یوٹرن لیا اور اداروں کو متنازعہ بنانے کی سابقہ روش کو اختیار کیا۔ اب یہ چوتھا یوٹرن ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اس لئے ذرائع کے مطابق یہ بھی آخری یوٹرن نہیں ہے۔ وہ اب بھی اپنے غیر آئینی مطالبات منوانے کی آخری کوشش کر رہے ہیں۔ فرلانگ مارچ کی سست رفتاری کی وجہ بھی یہی ہے۔

جہاں تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق ہے تو ان کے خلاف تمام جھوٹا پروپیگنڈہ ناکام ہو چکا ہے۔ عزت اور ذلت تو اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو عزت اور مقام عطا کیا ہے وہ صرف اس عہدے تک نہیں بلکہ اس کے بعد بھی قوم کے دلوں میں رہے گا۔ ان کی ملک و قوم کے لئے خدمات ہمیشہ تابندہ رہیں گی۔

کورونا وبا کے دوران بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے جوانوں کے ہمراہ فرنٹ لائن پر انسداد کورونا مہم کی قیادت کرتے رہے ان ہی کی خصوصی ہدایت پر فوجی اسپتالوں نے ویکسینیشن کیلئے دن رات عوام کو یہ سہولت فراہم کی۔

ان ہی کی طرف سے خصوصی فنڈ قائم کیا گیا جس میں پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے اپنی تنخواہوں سے عطیات جمع کروائے۔ اس دوران پاک فوج کے افسران اور جوانوں کی جانب سے تنخواہوں میں ہونے والے سالانہ اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کیاگیا۔

اسی طرح گزشتہ مہینے سیلاب کی صورتحال میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بذات خود ہر متاثرہ علاقے میں پہنچتے رہے اور حالات کا جائزہ لے کر قومی خدمت میں مصروف عمل افسران اور جوانوں کو نہ صرف ہدایات دیتے رہے بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہے۔ سیلاب متاثرین سے ملاقاتیں کرتے رہےاور ان کے مسائل کے حل کیلئے ہرممکن عملی کوشش بھی کرتے رہے۔

اس کے علاوہ ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ عمران خان بتائیں کہ اہل کون ہےاور اہلیت کیلئے ان کا کیا معیار ہے۔ کیا وہ خود بھی اہلیت کے معیار پر عمل کرتے ہیں۔ امید ہے اب ان کے کارکنان کی بھی سمجھ میں آگیا ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ اور ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔