کارل پوپر سے ایک اور ملاقات

April 28, 2024

ایک نوجوان سے کسی لڑکی نے پہلی مرتبہ ملاقات کی ہامی بھری تو نوجوان نے اپنے جہاندیدہ دوست سے مشورہ کیا کہ اسے ’’ڈیٹ ‘‘ پر کیا کرنا چاہیے۔ دوست نے جواب دیا کہ اسمارٹ عورتیں عموماً تین موضوعات پر گفتگو کرنا پسند کرتی ہیں، اپنے کھانے کی پسند نا پسند کے بارےمیں، گھر والوں کے متعلق اور فلسفہ۔ نوجوان نے یہ بات پلے سے باندھ لی اور اگلے روز ملاقات کیلئے لڑکی کے پاس پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر تک دونوں چُپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو تکتے رہے، پھر لڑکے نے پوچھا ’’کیا تمہیں آلو کے قتلے پسند ہیں؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا ’’نہیں۔‘‘ لڑکا خاموش ہو گیا، چند لمحے بعد اُس نے دوبارہ پوچھا ’’کیا تمہارا کوئی بھائی ہے؟‘‘ لڑکی نے کہا ’’نہیں۔‘‘ کچھ سوچنے کے بعد بالآخر لڑکے نے آخری پتہ پھینکا۔ ’’اچھا، اگر تمہارا کوئی بھائی ہوتا تو کیا اسے آلو کے قتلے پسند ہوتے؟‘‘

جو مشکل اُس نوجوان کو ڈیٹ پر پیش آئی وہی مجھے فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے ہوئے پیش آتی ہے کیونکہ فلسفے کا کوئی موضوع ایسا نہیں جس کا ہزار بارہ سو الفاظ کے اخباری کالم میں احاطہ کیا جا سکے۔ گزشتہ کالم میں لکھ بیٹھا تھا کہ کارل پوپر نے کانٹ کی تھیوری کا دلچسپ جواب دیا تھا، یار لوگوں نے اِس جملے سے یہ مطلب نکالا کہ بالکل اگلے ہی کالم میں اِس کا جواب لکھنا مجھ پر فرض ہے ورنہ وعدہ خلافی ہو جائے گی۔

کارل پوپر نے دراصل کانٹ کی فلسفیانہ تھیوری کا جواب دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ فلسفیانہ نظریات کی پڑتال کیسے کی جاوے؟ اِس سوال کے تناظر میں اُس نے مختلف فلسفیوں کے نظریات کی مثالیں دی تھیں جن میں کانٹ، ہیوم، برکلے، شوپنہار وغیرہ شامل تھے اور کہا تھا کہ determinism, idealism, epistemo logical irrationalism اور nihilismکے نظریات درست نہیں ہیں تاہم ’اِنکی تردید بھی نہیں کی جا سکتی۔‘ بظاہر یہ دو متضاد باتیں ہیں مگر پوپر نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے اور دلیل یہ دی کہ دو نظریات جو باہم متضادہوں مگر دونوں کی تردید ممکن نہ ہو، وجود رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً جبر و قدر کے نظریات جو باہم متصادم ہیں، بیک وقت درست نہیں ہو سکتے، لیکن اِن دونوں کو رد کرنا بھی ممکن نہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی نظریے کو رد نہ کر سکنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درست بھی ہے۔ اس مثال کوپوپر نے ایک اور انداز سے بھی سمجھایا ہے۔ فرض کریں کہ دنیا میں ایک قدیم لاطینی فارمولا ہے جس کے مطابق اگر دوا تیار کی جائے تو اُس سے تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس بیان کی تردید ممکن نہیں کیونکہ اسے غلط ثابت کرنے کے لیے کروڑوں سال درکار ہوں گے، دنیا میں لاکھوں جڑی بوٹیاں دستیاب ہیں، انہیں اربوں طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، لہٰذا جب تک یہ تمام طریقے آزما کر ختم نہ کر لیے جائیں اُس وقت تک لاطینی فارمولے کی حقانیت کو ماننے والے موجود رہیں گے۔ سو، یہ قیاس کرنا کہ ایسا کوئی فارمولا وجود نہیں رکھتا زیادہ معقول بات ہے بہ نسبت اُس فارمولے پر ایمان رکھنے کے جسے رد کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہ ہو۔ پوپر کہتا ہے کہ ہر وہ تھیوری عقلی اور سائنسی سمجھی جائے گی جسے ٹیسٹ کیا جا سکے یا جسے رد کرنے کا کوئی تجربہ کیا جا سکے۔ اِس مرحلے پر کارل پوپر اپنے نظریےکی پڑتال کرنے سے بھی نہیں چوکتا اور کہتا ہے کہ اگر اُس کی یہ تعبیر درست مان لی جائے تو پھر فلسفیانہ اور ما بعد الطبعیاتی نظریات، جنہیں رد کرنے کا کوئی طریقہ ہی موجود نہیں، اُن کی تخصیص کیسے کی جائے کہ کون سا نظریہ درست ہے اور کون سا غلط؟

کارل پوپر کے نزدیک یہ بے حد اہم سوال ہے اور اِس سوال کے جواب میں وہ مزید ایک سوال کرتا ہے کہ کیا نا قابل تردید فلسفیانہ نظریات کی پڑتال عقلی طور پرممکن ہے، اور اگر ہے تو کیسے، کیونکہ کسی نظریے کے حق میں یا اُس کے خلاف کیا معقول دلیل پیش کی جا سکتی ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ نہ تو اسے کسی تجربے کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُس کی تردید کی جا سکتی ہے؟ یہاں وہ دوبارہ کانٹ کے فلسفہ جبر و قدر کی طرف واپس آتا ہے، کانٹ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم کسی آدمی کے مستقبل کے بارے میں نہیں جان سکتے کہ وہ کیا کرے گا، تاہم اس کے برعکس ہم اِس بات کازیادہ علم رکھتے ہیں کہ اگلا سورج گرہن کب ہو گا، لیکن اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس آدمی کے موجودہ حالات، اُس کے جذبات، احساسات، خوف اور محرکات کے بارے میں کم جانتے ہیں جبکہ سورج، زمین اور چاند کی گردشوں کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ اِس سے کانٹ کی مراد یہ تھی کہ اگر ہمیں بندے کے حال کی بھی اتنی ہی جانکاری مل جائے تو ہم باآسانی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مستقبل میں کیا قدم اٹھائے گا۔ یہاں پوپر اپنا سوال دوبارہ فریم کرتے ہوئے کانٹ سے پوچھتا ہے کہ ’’میرے عزیز، فقط یہ دعویٰ کرنے سے کام نہیں چلے گا کہ ہمیں وہ تمام معلومات دستیاب ہیں جن کی بنیاد پر کسی شخص کے مستقبل کے اقدامات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ تمہیں بتانا پڑے گا کہ یہ معلومات کیسے حاصل کی جائیں گے اور اِن کی تفصیل کیا ہو گی تاکہ ہم تمہاری اِس تھیوری کی تجرباتی طور پر پڑتال کر سکیں۔‘‘ اِس مرحلے پر پوپر اِس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر کوئی فلسفیانہ نظریہ محض دعویٰ کی حد تک ہو اور اُس کی نوعیت ایسی ہو کہ ’ماننا ہے تو ٹھیک ورنہ آپ کی مرضی‘ تو ایسے نظریے پر عقلی بحث نہیں کی جا سکتی۔ کوئی بھی نظریہ، چاہے وہ سائنسی ہو یا فلسفیانہ، اسی صورت میں عقلی کہا جا سکتا ہے اگر وہ کسی مسئلے کا حل پیش کرے، جونہی ہم کسی نظریے کے بارے میں یہ بحث شروع کرتے ہیں کہ یہ نظریہ کسی مسئلے کا حل پیش کر سکتا ہے تو فوری طور پر اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ اُس نظریے کا تنقیدی جائزہ ممکن ہے، کیونکہ اب ہم اُس کی پڑتال کر سکتے ہیں اور یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا اِس نظریے کے تحت جو حل پیش کیا جا رہا ہے وہ قابل عمل اور قابل قبول ہے، کیا یہ حل اُس سے بہتر ہے جو دیگر نظریات اِس مسئلے کے بارے میں فراہم کرتے ہیں، کیا اِس سے باقی نظریات مسترد ہو جاتے ہیں؟ اِن سوالات کے جوابات ہی طے کریں گے کہ کوئی نظریہ، چاہے ناقابل تردید فلسفیانہ نظریہ ہی کیوں نہ ہو، درست ہے یانہیں۔

فلسفے کے یہ مباحث اِس قدر دلچسپ ہیں کہ بندہ انہیں پڑھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ دنیامیں کیسے کیسے ذہین اور جینئس لوگ گزرے ہیں جنہوں نے سچائی اور حقیقت کو پانے کی تلاش میں اپنی عمریں لگا دیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسان کبھی حتمی سچائی کو نہیں پا سکے گا، لیکن انسان کی سرشت میں چونکہ چین سے بیٹھنا نہیں، اِس لیے یہ جستجو قیامت تک جاری رہے گی، اُس روز پھر’یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک۔‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)