صنعت کاروں کا لہجہ خوشامدی نہیں تھا

April 28, 2024

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ پولیس کی وردی پہن کر ٹاک شوز کا پہلا موضوع بن گئیں۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسے مناظر کو حقیقی معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کہا جاتا تھا۔ ہم جیسے ’اخباری بوڑھوں‘ نے ایسے نظارے وفاقی اور صوبائی دارُالحکومتوں میں متعدد بار مشاہدہ کیے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بہرحال شکر گزار ہونا چاہئے کہ اب اصل خبر اور تصویر کیلئے نہ تو ٹی وی چینلوں کے آدھ گھنٹے بعد بلیٹن کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اخبار کا 24گھنٹے منتظر رہنا پڑتا ہے۔ میں نے جاننے کی بہت کوشش کی کہ مریم نواز صاحبہ نے اس یونیفارم کو اپنا پیراہن کیوں بنانا چاہا۔ پولیس یونیفارم کی کھوئی ہوئی عظمت کو واپس لانا مقصود ہے؟ ووٹ کو عزت دو کی طرح یونیفارم کو عزت دو کی تمنّا ہے؟ ان کی آئیڈیل تو مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح ہونی چاہئیں۔ شہید بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے مادر ملّت کو ہی اپنا آئیڈیل خیال کیا تھا۔ اپنے نام کے ساتھ محترمہ کا لاحقہ استعمال کیا۔ اسرار الحق مجاز کی آرزو تو یہ تھی۔

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

حبیب جالب سرگوشی کرتے ہیں:

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

ہمیں دور تذبذب میں حبیب جالب یاد آتے ہیں۔ شیخ ایاز کی صورت جھلملاتی ہے۔ خالد علیگ کی سفید پوشی میں شعلہ نوائی جلوہ گر ہوتی ہے۔ اب تو ہم جیسے ’’احتیاط پسند‘‘ رہ گئے ہیں۔ جو اشاروں کنایوں میں اظہار کرکے سمجھتے ہیں کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق ادا ہوگیا۔

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ان سے کچھ سیکھنے ان کے سوالات کے جوابات کا دن۔ آپ بھی ہر اتوار محسوس کرتے ہوں گے کہ ہمارا مستقبل ہم سے بہت کچھ جاننا چاہتا ہے۔ کاظم سعید صاحب کی ’’دو پاکستان۔ ہر پاکستانی گھرانے میں خوشحالی‘‘ نوجوانوں کے ایسے بہت سے سوالات کے مدلل جوابات دے رہی ہے۔ جمعرات کی ہماری اس تحریر نے پاکستان ہی نہیں۔ مختلف ممالک میں خیمہ زن پاکستانیوں کے دلوں میں نئی شمعیں روشن کردی ہیں۔ ایسی تحقیقی تصنیفات تو ہماری یونیورسٹیوں کے اقتصادیات اور سیاسیات کے شعبوں میں شامل نصاب ہونی چاہئیں۔ اس میں جن منزلوں اور اہداف کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر ان کے حصول کیلئے وطن عزیز کے ہر علاقے میں مخلصانہ کوششیں شروع کردی جائیں تو یقیناً اس ہزاریے (2000کے بعد) میں آنکھیں کھولنے والی نسل کو ایک ’ایکشن پلان‘ مل جائے گا۔ وہ اپنے شہروں کو ہی ٹورنٹو، بوسٹن، ہیوسٹن، برسلز، لندن،مانچسٹر بنانے کی دھن میں مصروف ہوسکتے ہیں۔ ترک وطن نہیں کرنا چاہیں گے۔ فارم 47یا 45کے ذریعے آنے والے حکمران اپنے طور پر جب پاکستان کی معیشت کے استحکام کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ اہل دانش اور اہل کاروبار میں اگرچہ بہت سے ذہنی فاصلے ہوتے ہیں لیکن ایک قدر مشترک ہے۔ وہ ہے مستقبل کی سوچ۔ شاعر،صحافی، محقق بھی ماضی کی روشنی میں مستقبل کا تصور کرتا ہے۔ اسی طرح کاروباری چاہے وہ ایک دکاندار ہو یا مل مالک۔ گروپ آف کمپنیز کا سربراہ ہو۔ وہ بھی مستقبل میں کاروبار کے امکانات دیکھتا ہے۔ ابھی جب وزیر اعظم کراچی آئے اور پاکستان کے چوٹی کے صنعت کاروں اور تاجروں سے ملے تو جذباتی اور خوشامدی لہجے کی بجائے حالات کے تقاضے کے عین مطابق معروضی گفتگو سننے میں آئی۔ وزیر اعظم اور ان کا خاندان بھی کاروباری ہے۔ ان کے بزنس نے گزشتہ چالیس برس میں بہت ترقی کی ہے۔ بلند قامت عارف حبیب ہمیشہ اس عظیم مملکت کیلئے روشن تصورات رکھتے آئے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے صاف صاف کہا کہ اقتصادی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ اس کیلئے ان کا مشورہ تھا کہ جب مسلم لیگ(ن) اپنی حریف پی پی پی سے اشتراک کررہی ہے تو انہیں اڈیالہ جیل کے قیدی 804 بانی پی ٹی آئی کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ یہ بھی کہا کہ انہوں نے آرمی چیف سے بھی یہی عرض کیا تھا۔ ان کا دوسرا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں اپنے ہمسایوں بالخصوص انڈیا سے اقتصادی تعلقات بڑھانے چاہئیں۔

عارف حبیب صاحب سے ہماری ملاقاتیں ’جنگ‘ سے عملی وابستگی کے دور سے ہیں۔ انہیں ہمیشہ ملک سے درد مند پایا ہے۔ ان کے اپنے حلقے میں شامل دوسرے بڑے کاروباری بلکہ کھرپ پتی بھی پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ سب آئندہ کئی کئی برس کا روڈ میپ رکھتے ہیں۔ تاجر طبقہ، یونیورسٹیوں کے اسکالرز، تحقیقی ادارے واہگہ سے گوادر تک اس عظیم مملکت کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کا ایک ایکشن پلان بناسکتے ہیں۔

حکومت سندھ کے اشتہارات میں جب یہ جملہ کان پڑتا تھا کہ ’’ سندھ خدمت میں سب سے آگے‘‘ تو بہت سوں کی پیشانیوں پر بل پڑتے تھے۔ لیکن اب جب سید خادم علی شاہ کے شہر میرپور خاص میں سندھ کے کئی قلمدان رکھنے والے وزیر شرجیل میمن نے جدید بسوں کا افتتاح کیا تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سندھ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں واقعی آگے بڑھ رہا ہے۔ کراچی میں سبز، سرخ، گلابی، سیاہ،سفید برقی بسیں شاہراہوں پر فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں۔ گلابی بسوں میں خواتین کا سفر دو ماہ کیلئے مفت بھی کردیا گیا ہے۔ کسی بھی ریاست میں شہری جو ٹیکس دیتے ہیں اس کے بدلے میں ریاست کو جو سہولتیں دینا ہوتی ہیں اس میں جان مال کے تحفظ، علاج معالجے، روزگار کے ساتھ نقل و حرکت کے آرام دہ ذرائع کی فراہمی سر فہرست ہوتی ہے۔ کراچی کو عالمی بینک کے مطابق تو 15ہزار ایسی بسیں درکار ہیں۔ جبکہ شہریات کے ماہر عارف حسن یہ تعداد 25ہزار بتاتے ہیں۔ وزیرا عظم 150بسوں کا وعدہ کرکے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ عام پاکستانی کیلئے اپنے گھر سے دفتر کارخانے جانے کیلئے اگر آرام دہ مل جائے تو ذہن سے پریشانی کافی حد تک کم ہوجاتی ہے ترقی یافتہ ملکوں کی ایک خاص عوامی سہولت اچھی ٹرانسپورٹ ہوتی ہے ۔ ’کراچی ماس ٹرانزٹ‘ کیلئے تقریریں سنتے تو کئی نسلیں گزر گئیں ، اچھی بسیں، زیر زمین ریلوے، لانڈھی سے کیماڑی تک کشتیاں اگر میسر آجائیں تو شہر میں موٹر سائیکل کی جان لیوا سواری سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کسی سماج میں اتنی ہی ضروری ہے۔ جتنا انسانی جسم کیلئے خون کی گردش۔