سیاسی قوتوں کو اب مل بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے چاہئیں، خواجہ آصف

November 25, 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سیاسی قوتوں کو اب مل بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے چاہئیں،آج ایک بحران ختم ہوا، عمران کے سیاسی مشیروں نے انہیں پہلی بار صحیح ایڈوائس دی ہے، دھرنوں، دھونس اور دھاندلی سے الیکشن کی تاریخ بھی آئین کی شکست ہے، سیاستدانوں کو آرمی چیف سے سیاسی امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں، صدر علوی سے اسحاق ڈار کا رابطہ ہوا، ہمارے ان سے انفارمل رابطے ہوئے، ان کے لوگوں نے کہا الیکشن کی تاریخ دیدیں تاکہ ہم دھرنا اور سارا معاملہ کسی طرح لپیٹ سکیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں مجیب الرحمن شامی اور حامد میر سے نے بھی گفتگو کی۔ پروگرام کی تفصیل یوں ہے۔ شاہزیب خانزادہ: آج جب کابینہ نے منظوری دی اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں نے جنرل عاصم منیر کو retain کیا، اس تناظر میں کیا کہ کہیں صدر اس سمری کو روک نہ دیں اور وقت نہ لے لیں، ستائیس نومبر کو ریٹائرمنٹ کا ٹائم ہے اس قدم کو ineffective کرنے کیلئے کیا یا کس لئے کیا؟ خواجہ آصف: ہمیں یہی ایڈوائس دی گئی تھی کہ یہ ایک راستہ ہے بغیر کسی رول و ریگولیشن کو چینج کئے بغیر، بغیر کسی قانون سازی کے، جو موجودہ کتاب کے مطابق کرنی چاہئے اور وہ قانون کے مطابق ہولڈ بھی کرے گی، اللہ کا فضل ہے اس کی نوبت نہیں آئی اور نوٹیفکیشن ہوگیا ہے، جنرل عاصم منیر کی تین سال کی مدت ہاتھ کے ہاتھ شروع ہوجائے گی۔ شاہزیب خانزادہ: بہتر نہیں ہوگا کہ سیاسی قوتیں اب مل کر بیٹھیں اور معاملات آگے بڑھائیں؟ خواجہ آصف: آپ جو بات کررہے ہیں بالکل ایسا ہی ہونا چاہئے، سیاسی قوتوں کو اب مل بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے چاہئے، میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا، یہ جو آپ نے کہا ہے یہ کمبی نیشن ہوئی ہے مختلف فیکٹرز کی، عمران خان نے کمبی نیشن کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا ہے، آج ایک بحران ختم ہوا ہے اور معاملات خیر و خوبی سے طے پاگئے ہیں اس لئے میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا، میں صرف یہ بات کہوں گا کہ ان کے سیاسی مشیروں نے انہیں پہلی دفعہ صحیح ایڈوائس دی ہے، میں نے آپ کے پروگرام میں پہلے بھی کہا تھا کہ انہیں تھوڑا سا realisticly یا realism کا احساس ہورہا ہے، پہلے انہوں نے امریکا کو بری الذمہ کیا، اس کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی بے قصور قرار دیدیا لیکن اتنا گلہ ضرور کیا کہ میری مدد کیوں نہیں کی، ان سے ہماری مخالفت ہے جو رہے گی لیکن اگر ہم کم از کم کسی ایجنڈے پر اتفاق کرسکتے ہیں، مثلاً ہم معیشت پر اتفاق کر جائیں، اصول طے ہوجائیں گے کہ کوئی بھی حکومت آئے انہیں آلٹر نہ کرسکے۔ شاہزیب خانزادہ: کم ازکم ایجنڈے پر وہ اسی وقت آئیں گے جب آپ الیکشن کی تاریخ دیدیں، اس پر آپ کوئی اتفاق کرلیں تاکہ سیاسی قوتیں بیٹھ کر معاملات آگے بڑھائیں؟ خواجہ آصف: اس طرح دھرنوں، دھونس دھاندلی سے اگر الیکشن کی تاریخیں دی جائیں گی تو یہ بھی آئین کی شکست ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ: ہمیں نظر آیا کہ خان صاحب کو مطالبات میں ناکامی ہوئی، اگر آپ چاہتے ہیں وقت پر الیکشن ہو تو اس پر بھی ڈائیلاگ ہوسکے؟ خواجہ آصف: صدر علوی سے اسحاق ڈار کا رابطہ ہوا، انہوں نے وہاں mainly تقریباً 100فیصد اکنامی پر بات کی، معاشی مشکلات پر گفتگو ہوئی، ساتھ یہ بھی گفتگو ہوئی کہ ان پر ہمیں اتفاق کرلینا چاہئے تاکہ ساری پارٹیوں کا اکنامک ایجنڈا ایک ہو، جس طرح شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر تجویز دی تھی مگر اسے لفٹ نہیں کرائی بلکہ ردی سمجھ کر فارغ کردیا گیا تھا، آج یہ الیکشن کی نئی تاریخ چاہتے ہیں، ہمارے ان سے انفارمل رابطے ہوئے ہیں، ہمارے کچھ کولیگز کے میں پی ایم ایل این کی بات کررہا ہوں انفارمل رابطے ہوئے ہیں، ملاقات اس وقت اسمبلی میں ہوتی ہے وہ لوگ آتے ہیں، کچھ لوگ سینیٹ میں ہیں کچھ لوگ ایم این اے ہیں مستعفی ہوئے وہ بھی آتے ہیں ان سے ان کے رابطے ہوئے ہیں، انہوں نے یہی کہا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں الیکشن کی کوئی تاریخ دیدیں تاکہ ہمیں بھی کوئی اس طرح کا راستہ مل جائے اور ہم جو جی ٹی روڈ سڑکوں پر چڑھے ہوئے ہیں، دھرنے پر آرہے ہیں، پنڈی آرہے ہیں، منڈی بہائو الدین جارہے ہیں، یہ سارا معاملہ ہم کسی طرح لپیٹ سکیں، یہ لفظ دوبارہ میری زبان پر آرہا ہے کہ انہیں ایک طرح سے فیس سیونگ مل جائے، اس پر بات بھی ہوئی ہے لیکن بات یہی آتی ہے کہ اس طرح ملک میں ہیجان برپا کرکے تاریخ لی جائے یہ درست نہیں ہے، یہ اچھی روایت نہیں ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ: ابھی بھی نواز شریف چاہتے ہیں کہ ٹائم پورا ہو اور وہ خود بھی آنے کو تیار ہیں؟، اب تو آرمی چیف کی تعیناتی بھی ہوگئی، اس سے پہلے مریم نواز کی بریت ہوگئی، وہ واپس آنے کیلئے تیار ہیں، اگلے مہینے کوئی امکان ہے؟ خواجہ آصف: یہ فیصلے نواز شریف اکیلے نہیں کرسکتے ہماری ایک اتحادی حکومت ہے، probably میری خواہش بھی ہوسکتی ہے کہ ہمیں اگلا الیکشن بھی ایک کولیشن کے حساب سے لڑنا چاہئے، کوئی ایسا فارمولا طے کرنا چاہئے، ہمارے لئے یہ سیاسی طور پر منافع بخش ہوگا اگر ہم کولیشن کے طور پر اگلا الیکشن لڑیں، لیکن تب تک ہمیں تھوڑا ٹائم ضرور چاہئے ہوگا کہ ہم تھوڑی ریکوری کرسکیں جو ہمارا political capital lose ہوا ہے، اب آپ نے جس طرح ابھی گنا ہے چار پانچ چیزیں گنی ہیں جن کے اوپر عمران خان کو کامیابی نہیں ہوئی یا انہوں نے جو ایک باڑ raiseکی تھی وہ دوبارہ نارمل لیول پر آگئی ہے تو اس چیز کو اگر ہمیں اب موقع ملا ہے تو might as well avail that opportunatiy to recover some of lose capital۔ شاہزیب خانزادہ: اس صورت میں آپ کتنے پراعتماد ہیں،ظاہر ہے جانے والے آرمی چیف کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مداخلت نہیں ہوگی، نئے آرمی چیف آئے ہیں آپ کتنے پراعتماد ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا،کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان الزام تو لگارہے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے مشورے سے نہ اپائنٹ ہوتا لیکن نواز شریف نے جو جو آرمی چیف لگائے بعد میں تعلقات عمران خان کے ان سے زیادہ بہتر تھے، جنرل مشرف کے ساتھ بہتر تھے، راحیل شریف کے ساتھ اچھے تھے، جنرل باجوہ کے ساتھ تو اتنے اچھے تھے کہ انہیں توسیع بھی دی، دوبارہ توسیع کا وعدہ بھی کیا اور ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے رہے، آپ لوگوں کی ہسٹری یہ ہے کہ لگاتے آپ رہے اور تعلقا ت عمران خان کا بہتر ہوجاتے ہیں؟ خواجہ آصف: خدا کا واسطہ ہے سیاستدانوں کو یہ چیز ترک کرنی چاہئے کہ آرمی چیف ہماری مرضی کا لگے گا، آرمی چیف سیاستدانوں کی مرضی کا نہیں لگتا جس طرح سیاستدان سوچتے ہیں، ہماری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے، میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں جو مجھے میرے والد نے بتایا تھا، 1958ء کا جو ملٹری ٹیک اوور تھا اس کے چند مہینے بعد میرے والد اور چوہدری محمد حسین چٹھہ صاحب فیروز خان نون سے ملنے گئے، انہوں نے گلہ کیا کہ ایوب خان نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے، عدنان مندریس جو اس وقت ترکی کے وزیراعظم تھے ان کے کہنے پر میں نے ایک سال کی ایکسٹینشن دی ہے، آپ حساب لگالیں کہ اس بندے نے ایکسٹینشن دی تیسرے ملک کے کہنے پر اور وہ مایوسی کا اظہار کرتے تھے کہ اس نے میرے ساتھ وفا نہیں کی۔ بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وفا نہیں کی جاسکتی، میں اس بات پر ایمان لانا چاہوں گا کہ آئندہ میرٹ پر قانون، آئین اور پاکستان کی سالمیت اور ملک کی ریکوائرمنٹس کے مطابق تمام ادارے ایکٹ کریں گے اس میں فوج کا ادارہ بھی ہے، سیاستدانوں کو ایسی امیدیں آرمی چیف کے ساتھ وابستہ نہیں کرنی چاہئیں جو خالصتاً سیاسی ہیں، جن کا کوئی نیشنل کیریکٹر نہیں ہوگا اگر اس میں کوئی ناجائز قسم کی، جس طرح عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مجھے انہوں نے ووٹ آف نو کانفیڈنس سے کیوں نہیں بچایا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایسی بات کروں گا تو میں اپنے آپ کی توہین کررہا ہوں گا کہ میں یہ بات کہوں کہ میری مدد کیوں نہیں کی، مجھے عدم اعتماد سے کیوں نہیں بچایا، مجھے تو یہ کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے کہ ایک سیاستدان جو ہمارا سابق وزیراعظم رہا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ فوج مجھے بچا لیتی، اس کا مطلب ہے اس کی اپنی کوئی ٹانگیں نہیں تھیں پھر وہ فوج کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا تھا، وہ چاہتا تھا کہ مجھے دوبارہ بیساکھیاں میسر ہوں، سیاستدان کو یہ بات بھول جانی چاہئے اس پر ایک خط تنسیخ پھیر دینی چاہئے، ہمیں ایسی امیدیں وابستہ کرنا بند کرنا چاہئے آرمی چیف سے یا فوج سے کہ وہ سیاست میں مداخلت کریں گے، سیاستدانوں کا احترام کریں، وزیراعظم کے عہدے کا احترام کریں، اس عہدے کے قانونی و آئینی تقاضے پورے کریں۔ شاہزیب خانزادہ: ہم امید کرتے ہیں ایسا ہو پاکستان کی سیاست میں یہ روایت بنے۔ شاہزیب خانزادہ :ناظرین آج آج کا اہم ترین گزر گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا ، سینئر تجزیہ کار حامد میر اور مجیب الرحمن شامی صاحب ہمارے ساتھ موجود ہیں ، حامد میر صاحب یہ بتایئے گا کہ خوش اصلوبی کے ساتھ ہوگیا اور بہت اچھی بات ہے کہ اتفاق رائے سے یہ معاملہ ہوگیا ، عمران خان بضد تھے اس حکومت کو آرمی چیف کی تعیناتی نہیں کرنے دیں گے یہ میرٹ پر نہیں لگائیں گے کیا کوئی ایسے ایلیمنٹس تھے تحریک انصاف کے اند ر جن کی رائے prevailکرگئی خان صاحب کو بات سمجھ میں آگئی یا جو حکومت نے آج فیصلہ کرلیا retain جنرل عاصم منیر کو تو انہیں سمجھ میں آگیا تھا کہ فائدہ کوئی نہیں ہوگا صرف controversyآگے بڑھے گی۔