سینئر ترین جنرل عاصم منیر پاکستان کے11ویں چیف آف آرمی اسٹاف کے لئے نامزد ہوچکے ہیں۔ اللہ تبارک ان کی تقرری کو پاکستان کےلئے باعثِ خیر بنائے۔ نامزدگی کے طریقۂ کار پر بحث پہلے ہی جاری تھی اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ چند روز قبل امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے صحافیوں سے گفتگو میں یہ تجویز پیش کی کہ آرمی چیف کی تقرری سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے سنیارٹی کے اصول کے تحت ہونی چاہئے۔ اس تجویز پر ہمارے محترم اور عزت مآب عرفان صدیقی صاحب کا قلم ہی نہیں یاد داشت بھی ان کی گرفت میں نہ رہی۔ انہوں نے بیک وقت کئی اخبارات میں چھپنے والے اپنے کالم میں سراج الحق کی جسارت کو اس طرح کاتختۂ ستم بنانے کی کوشش کی ہے، جس طرح جسٹس فاؤنڈیشن کے چیئرمین کو بنایا گیاتھا، انہوں نے جب نومبر2019ء کو چیف آف آرمی اسٹاف کی توسیع کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا،پہلی تاریخ کو تو وہ پیش ہی نہ ہوسکے اور اگلی تاریخ کو حاضر ہو کر دست بستہ درخواست واپس لینے کی استدعاکر ڈالی۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کاکہ اس نے فیصلہ کردیاکہ عوامی مفاد کی عدالتی کارروائی کو عدالت کی اجازت سے ہی واپس لیاجاسکتا ہے اور یوں عدالت نے اس پر ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ کاش عرفان صدیقی صاحب اس فیصلے کو اب بھی پڑھ لیں۔ نیز وہ اپنی یہ غلط فہمی بھی دور کرلیں کہ یہ سراج الحق کی ذاتی تجویز نہیں ہے۔ جماعت کی مجلس شوریٰ نے اس معاملے پر دوٹوک موقف اپنایا ہے۔ اس پر قرار دادبھی آچکی ہے اورجماعت اسلامی نے اس کو اپنے منشور میں بھی شامل کرلیاہے۔جناب عرفان صدیقی صاحب بُرا نہ منائیں تو ہم بھی ان سے سوال کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ جماعت اسلامی تو ایک تجویز دینے کے لئے مرکزی شوریٰ کی پابند ہے لیکن جس جماعت سے اس وقت وہ تعلق رکھتے ہیں، کیاان کے قلم میں کوئی ایسا زور ہے کہ وہ اپنے قائد سے پوچھیں کہ وہ قومی سطح کے اہم اور بڑے فیصلوں کے لئے پارٹی اجلاس کیوں نہیں کرتے؟ آرمی چیف کی توسیع کے لئے لندن میں بیٹھ کر صوابدیدی اختیار کس پارٹی دستور کے تحت استعمال کرتے ہیں؟ عرفان صدیقی صاحب نے ایک سوال یہ بھی اٹھایا ہے کہ ”نئے پاکستان“سے قبل کیاکسی ادنیٰ درجے کے سیاسی رہنمانے بھی اس تقرری کو ایسے بھونڈے انداز میں متاع کوچہ وبازار بنایا ہے؟ اس کاجواب تو سپریم کور ٹ کے 3ججوں کے متفقہ فیصلے میں موجود ہے۔ ”یہ انکشاف ہمارے لئے صدمہ کا باعث ہے کہ اب تک چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کی شرائط، عرصۂ ملازمت،توسیع یا نئی تقرری وغیرہ کسی ضابطے اور قانون کے بغیر ہو رہی ہے۔“فیصلے میں ایک اور جگہ لکھا گیا ہے ”اس معاملے پر بحث ہونی چاہئے تاکہ ہر پہلو سامنے لاکر حل تلاش کیاجاسکے۔“اسی فیصلے کے شروع میں پیرا 7میں درج ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری پاکستان کے ہر شہری کی زندگی، سیکورٹی اور آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا بغیر کسی شک کے یہ عوامی اہمیت سے جڑا ہوا بڑا اہم سوال ہے۔جماعت اسلامی کی استدعا یہ ہے کہ چیف کی تقرری کو اقتدار کی غلام گردشوں میں مفاد پرستی، رشتہ داری اور بادشاہوں کی طرح دل کو بھائے جیسی صوابدیدسے نکال کر کسی میرٹ اور سنیارٹی کے قواعد و ضوابط کاپابند بنانا چاہئے۔ صوابدیدبھی ایسی کہ ایک لیڈر پاکستان میں ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف پر گرما گرم بیان داغ رہاہو اور جب بھاؤ تاؤ ہوجائے تو لندن پہنچ کر قرآن پر حلف لے کرایکسٹینشن کا ساتھ دے دیا جائے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ آرمی چیف لگانے کااختیار میاں نواز شریف نے استعمال کیاہے اور عرفان صدیقی صاحب کو خوب معلوم ہوگاکہ ان کے ممدوح میاں نواز شریف نے اپنی صوابدید کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے لیکن وہ خود ہی سب سے زیادہ سول اور ملٹری تعلقات کی خرابی اور تنازعات کاشکار ہوئے۔عرفان صدیقی صاحب یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ صوابدید پر کوئی قدغن نہیں لگنی چاہئے۔ جمہوریت جب پروان چڑھتی ہے تو اس کی ایک ہی نشانی ہے کہ آپ کتنے مشہور ہوں، دو تہائی اکثریت رکھتے ہوں۔ آپ بار بار منتخب ہوتے ہوں۔ آپ کتنے ہی سربلند ہوں لیکن قانون و ضوابط آپ سے بلند ہونے چاہئیں۔عرفان صدیقی صاحب اپنی یہ غلط فہمی بھی دور کرلیں کہ فوج میں کرنل،بریگیڈئیر ،میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں پر ترقی اور سپر سیڈ کے لئے بھی صوابدیدی اختیار استعمال نہیں کیاجاتا۔ یہ سب کام قاعدے اور ضابطے کے مطابق انجام دیاجاتا ہے۔ ان قواعد میں مدت ملازمت کی سنیارٹی کے علاوہ مختلف دیگر قابل پیمائش ضوابط بھی شامل ہیں، جن میں وارکورسز سے لے کر کئی امتحانات اور ان کے نمبرزشامل ہیں۔ اس لئے انہیں کسی بھی طورصوابدیدنہیں کہا جاسکتا۔صوابدیدی اختیاررہے گا تو تقرری کرنے والے رشتہ داروں کو تلاش کرتے رہیں گے۔ صوابدید کے نتائج پاکستانی قوم نے بار بار بھگتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم میں سے کچھ لوگ تاریکیوں کے مسافر بن چکے ہیں۔ وہ ٹھوکریں کھا کھا کر گرنا پسند کرتے ہیں۔ ہر شر انگیز تجربے کے بعد اس سے بڑھ کر تجربے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے انگارے پر ہاتھ پڑ گیاتھا اب لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا۔
(مصنف سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان ہیں)