آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تعطل!

November 30, 2022

ملک کی معاشی زبوں حالی قرضوں کی بھرمار ، سرمایہ کاری کی شرح میں کمی، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے ، مہنگائی، بیروزگاری، صنعتی پیداوار میں تنزلی اور اس نوعیت کے دوسرے مسائل کے پس منظر میں یہ خبر مزید تشویش کا باعث ہو گی کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان بات چیت میں رواں مالی سال کیلئے نظرثانی شدہ میکرواکنامک فریم ورک کے حوالے سے وسیع تر معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکااور معاملات تعطل کا شکار ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کے 9ویں جائزے کی تکمیل اور آئندہ سال یعنی 2023ء کیلئے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ فریقین اگرچہ اس معاملے میں مہر بہ لب ہیں اور کچھ بتانے سے گریز کر رہے ہیں لیکن اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے سے ہونے والے ورچوئل مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور دونوں فریق اب تک کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ پاکستان کے تیار کردہ نظرثانی شدہ ماڈل فریم ورک پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اختلافات دور نہیں ہوتے اور اتفاق رائے کی کوئی صورت نکل نہیں آتی پالیسی سطح پر مذاکرات ممکن نہیں ہوں گے نہ زیر التواجائزہ مکمل ہو گا۔ پاکستان کو اب اس جائزے کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے زیادہ سخت محنت کرنا ہو گی اور یہ کام سال نو اور کرسمس کی تعطیلات کے دوران بھی جاری رکھنا ہو گا جو 20دسمبر سے شروع ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس جنوری 2023ء میں ہو گا جس میں پاکستان کیلئے اگلی قسط کی منظوری دی جائے گی لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریق اگلے دس روز میں اتفاق رائے حاصل کر لیں اور درپیش مشکلات پر قابو پا لیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے 9ویں جائزے سے پہلے اپنے اخراجات کم کر نے کا بھی مطالبہ کیا ہے جو اس سال بدترین سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور لاکھوں بے گھر افراد کی بحالی کے حوالے سے بہت مشکل ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی امداد کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے الفاظ میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو زیادہ تر انحصار اپنے وسائل پر کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر سیاسی عدم استحکام ، شرح سود میں اضافے، سٹاک ایکسچینج میں مندی، روپے کی ناقدری ، کاروباری حالات اچھے نہ ہونا بھی ایسے عوامل ہیں کہ ملک مالی اور اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے مالی مشکلات کے حوالے سے اپنے اعداد و شمار آئی ایم ایف سے شیئر کئے ہیں۔ عالمی ادارے کی ٹیم اس حوالے سے جلد اسلام آباد آنے والی ہے لیکن اندرون اور بیرون ملک وہ قوتیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ملک کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں خاص طور پر سیاسی عناصر اس معاملے میں پیش پیش ہیں اس لئے آئی ایم ایف کو قائل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ حکومت معیشت کو سہارا دینے کیلئے کئی اقدامات کر رہی ہے جس کے مثبت نتائج کی توقع ہے لیکن سیاسی افراتفری نے اہل اقتدار کی زیادہ توجہ اپنے تحفظ کی طرف کھینچ رکھی ہے اور جو قوتیں انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتی ہیں وہ کھل کر کھیل رہی ہیں۔ اس صورتحال میں معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اور عام آدمی حیران و پریشان ہے کہ دو وقت کی روزی کا بندوبست کیسے کرے ۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی عناصر کو کون سمجھائے کہ وہ ملک کی فکر کریں ملک جس سیاسی و معاشی بحران سے اس وقت دوچار ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس کے مقابلے کیلئے پوری قوم کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔