بے لگام مہنگائی اور بے حس حکمراں

January 31, 2023

پاکستان اس وقت اپنے نا اہل حکمرانوں کے ہاتھوں معاشی دہشت گردی کا شکار ہے۔پاکستانی معیشت کے اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کے مابین نام نہاد مباحثے کا محبوب موضوع ہے۔ ملک کے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں نہ تو عوامی احساسات سے آگاہی ہے اور نہ ہی عوام کی مشکلات سے کوئی غرض۔13 جماعتی حکومتی اتحاد کی ترجیحات میں سب سے پہلی ترجیح عمران خان اور ان کی جماعت کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ ایک سیاسی حکومت کے دور میں کچھ ایسی سماجی گھٹن پیدا کردی گئی ہے کہ محض تنقید کرنے کی پاداش میں آپ کو کسی بھی مقدمے میں جیل یاترا کرائی جا سکتی ہے۔فواد چوہدری کی گرفتاری نے اس حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ معاشی میدان میں کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے حکمراں کس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو پسِ دیوارِ زنداں کرنے کے درپے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو نہ تو معیشت کی فکر ہے اور نہ ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کی۔انکے اپنے گھر لندن اور دبئی میں ہیں، شہزادوں کی طرح پاکستان آکر حکمرانی کرنے والے اس طبقے کو کیا پتا ایک عام پاکستانی کس طرح مشکل کی چکی میں پس رہا ہے۔ وہ کیا جانیں کہ پٹرول بم گرنے سے گھریلو بجٹ کس طرح برباد ہوتا ہے۔انہیں اس تکلیف کا کیسے احساس ہوسکتا ہے کہ جب والد کو بچوں کی فیس یا آٹے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے!ہمارے حکمراں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں جن کا زمینی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔بیرون ملک سے علاج کروا کے پاکستان میں قدم رنجہ فرماتے ہی مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر نے قوم کو اسحاق ڈار پر اعتماد کرنے کی سفارش کی تھی، انہی صاحب نے پاکستانی قوم پر مہنگائی کا ایک اور بم گرا کر ن لیگ کی چیف آرگنائزر کو سلامی پیش کی ہے۔ اب تو یہ حالات ہوگئے ہیںکہ پاکستان میں رہنے کے اخراجات ہیں اور نہ پاکستان سے بھاگنے کے، اس جنت نظیر کو نالائق حکمرانوں نے جہنم زار بنا دیا ہے، زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر ایک ماہ کی برآمدات کو پورا کرنے کے بھی قابل نہیںہیں۔آئی ایم ایف نے قرضے کی اگلی قسط مؤخر کردی ہے ،ڈالر ایک ہی دن میں تقریبا 30روپے مہنگا ہو چکا ہے، پاکستان پر واجب الادا قرضوں میں یک لخت 28 سو ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے، سونے کی قیمت تقریباًدو لاکھ دس ہزار روپے فی تولہ ہوگئی ہے جبکہ چاندی کی قیمت 2150 روپے فی تولہ ہوگئی ہے۔ذرائع کے مطابق ملک کی تاریخ میں سونے اور چاندی کی قیمت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور تھیں، اب مزید بڑھ گئی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ پر خام مال سے لدے ہوئے کنٹینر ایل سی نہ کھلنے کے سبب مرداروں کی طرح سطح سمندر پر تیر رہے ہیں، جس سے ملک میں ادویات اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا شدید خطرہ ہے۔ اس سال ربیع اور خریف کی فصلوں کے تخمینے بھی حوصلہ شکن ہیںجس سے ملک میں غذائی بحران پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔دالوں کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔موجودہ حکمرانوں نے ایک اچھے خاصے چلتے ہوئے ملک کو سری لنکا جیسا ملک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس شدید معاشی بحران میں حکومتی غیرترقیاتی مصارف میں کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔حکومتی لائولشکر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہےاور اتنے برے حالات میں ہمار ا نیر و چین کی بانسری بجا رہا ہے۔معیشت اور قومی سیاست کا نوحہ ایسا ہے کہ جتنا بھی لکھیں کم ہے۔ہر محب وطن پاکستانی خون کے آنسو رو رہا ہے۔یہاں تک کہ ریاست کے مستقبل پر،خاکم بدہن، کئی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کے دشمن یہ صورت حال ایک منصوبے کے تحت پیدا کر رہے ہیں اور ہمارے حکمراں اسکا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارتی نشریاتی اداروں پر بیٹھ کر تبصرہ کرنے والے بھارتی معیشت دان اور سیاستدان کھلے بندوں پاکستان کے معاشی بحران کا مذاق اڑا رہےہیںاور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی متوقع صورتحال پر تبصروں کےذریعے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں۔عمران خان کو دیوار سے لگانے کیلئے گیارہ جماعتی نااہل ٹولے کی غیر مرئی حوصلہ افزائی عوام کے اندر موجود غصے میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔یہ انتہائی نازک وقت ہے کہ جب ایک طرف پاکستانی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے تو دوسری طرف ہماری سرحدوں پر موجود دشمن ہمارے کمزور ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ان حالات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کردار واضح کرنا چاہئے۔ پسند اور ناپسند کا تاثر ختم ہونا چاہئےکیونکہ فوج کی طاقت بھی عوام ہیں اور پاکستانی عوام اپنی فوج سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیںلیکن اگر ملک کے مقبول ترین رہنما کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا رہااور پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے رہنماؤں کو مسلسل دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی رہی تو اس سے پاکستانی عوام کے دلوں میں موجود ناراضی میں مزید اضافہ ہوگا جو نہ تو اسٹیبلشمنٹ کے لئےمفید ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی کیلئے۔ان ناگفتہ بہ حالات سے نکلنے کا ایک ہی حل ہےکہ جلد از جلد قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے آزادانہ، منصفانہ انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئے حکمراں اس کشتی کو گرداب سے نکالیں۔نئے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت ہی ایسی صلاحیت کی حامل ہوگی کہ وہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرزکو ایک میز پر بٹھائے۔