حالات کی سنگینی اور بڑھے گی!

February 03, 2023

فواد چوہدری ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں ان پر مقدمہ غلط بنایا گیا تھا مگر اس مقدمے کے بعد بھی حکمرانوں نے سبق نہیں سیکھا، گرفتاریوں کا عمل جاری ہے، شیخ رشید احمد کے علاوہ کچھ اور لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔گرفتار ہونے والوں میں وکلا اور صحافی بھی شامل ہیں۔ پشاور کی رہائشی قومی اسمبلی کی سابق رکن شاندانہ گلزار اپنے شہر کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ پشاور جسے کبھی پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اب یتیموں کا شہر بن چکا ہے، یہاں بسنے والے بہت سے بچے یتیم ہو چکے ہیں، اس شہر کو دھماکے کھا گئے، یہاں کی رونقیں چھِن گئیں اب یہاں خوف کے سائے ہیں اور گلیوں میں موت رقصاں ہے، یہاں بارود کی بو آتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا دہشت گردوں کا خاص ہدف بنا ہوا ہے ،ملک کےباقی صوبوں میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں ،یہاں گرفتاریوں ،اغوا، چوریوں، ڈکیتیوں، بھوک اور خودکشیوں کا راج ہے ۔گزشتہ دس مہینوں سے ملک پریشان کن حالات کا سامنا کر رہا ہے، آنے والے چند مہینے مزید سختی کی آمد کا پتہ دے رہے ہیں، خاص طور پر مارچ اور اپریل میں حالات بہت سنگین ہو جائیں گے ۔ان حالات کی روشنی میں کئی کتابوں کے خالق مولانا ابو الکلام آزاد کا وہ انٹرویو یاد آ رہا ہے جو معروف صحافی آغا شورش کاشمیری نے کیا تھا ،شورش کاشمیری کے سوالوں کے جواب میں مولانا ابو الکلام آزاد فرمانے لگے: ’’جناح ؒ اور لیاقت علی خان جب تک زندہ ہیں اس وقت تک مشرقی پاکستان کا اعتماد متزلزل نہیں ہوسکتا لیکن دونوں رہنمائوں کےبعد ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ناراضی اور اضطراب پیدا کر سکتا ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے لئے بہت طویل مدت تک مغربی پاکستان کےساتھ رہنا ممکن نہیں ہو گا، دونوں خطوں میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے، سوائے اس کے کہ دونوں طرف رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان پائیدار سیاسی اتحاد پیدا ہی نہیں کر پائے، عرب دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی پاکستان کی زبان، رواج اور رہن سہن مغربی پاکستان کی اقدار سے مکمل طور پر مختلف ہے۔پاکستان کے قیام کی گرم جوشی ٹھنڈی پڑتے ہی اختلافات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے جو جلد ہی اپنی بات منوانے کی حد تک پہنچ جائیں گے،عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں یہ اختلافات شدت اختیار کریں گے اور پاکستان کے دونوں حصے الگ ہو جائیں گے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان خطے میں موجود تضادات اور اختلافات کا میدانِ جنگ بن جائے گا، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گا۔ وہ وقت دور نہیں ہو گا جب عالمی قوتیں پاکستان کی سیاسی قیادت میں موجود مختلف عناصر کو استعمال کرکے اس کے حصے بخرے کر دیں گی جیسا کہ بلقان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا، ہو سکتا ہے کہ اس وقت ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اصل معاملہ یقینی طور پر مذہب کا نہیں بلکہ معاشی ترقی کا ہے۔ مسلم کاروباری قیادت کو اپنی صلاحیت اور قابلیت پر شکوک وشبہات ہیں۔ مسلمان کاروباری حضرات کو سرکاری سرپرستی اور مہربانیوں کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ آزادی اور خود مختاری سے خوفزدہ ہیں ،وہ دو قومی نظریے کی آڑ میں اپنے خوف کو چھپاتے ہیں اور ایسی مسلمان ریاست چاہتے ہیں جہاں وہ بغیر کسی مقابلے کے معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کرسکیں۔یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ وہ کب تک اس فریب کاری کو زندہ رکھ سکتے ہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قیام ہی سے پاکستان کو بہت سنگین مسائل کا سامنا رہے گا اور کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہوگا، پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان اور جنگ کے امکانات ہوں گے۔ داخلی شورش اور علاقائی تنازعات پیداہوں گے، پاکستان کے صنعت کاروں اور نو دولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہو گی ،نو دولتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور پیدا ہو گا ،نوجوانوں کی مذہب سے دوری،عدم اطمینان اور نظریۂ پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا، پاکستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے عالمی قوتوں کی سازشیں بڑھیں گی اس صورتحال میں پاکستان کا استحکام دبائو کا شکار رہے گا اور مسلم ممالک اسے کسی بھی طرح کا تعاون فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، شرائط کے بغیر دیگر ذرائع سے بھی مدد نہیں آئے گی اور پاکستان نظریاتی اور سرحدی سمجھوتوں پر مجبور ہو جائے گا‘‘۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے یہ انٹرویو اپریل 1946ء میں دیا انٹرویو میں مولانا ابو الکلام آزاد نے تمام مسلم دنیا کے بارے میں کڑوے سچ بولے اور ان کے مستقبل کا احاطہ کیا انہوں نے خاص طور پر پاکستان کے حوالےسے بڑی مفصل گفتگو کی، ان کی گفتگو آنے والے وقت میں سچی ثابت ہوئی ۔میں ایک دردمند اور محب وطن پاکستانی کے طور پر پاکستان کےتمام اداروں کے اہم لوگوں، سیاسی قیادت، نوجوانوں سمیت پوری قوم سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مولانا ابو الکلام آزاد کے انٹرویو سے سیکھیں۔پاکستان کو جو خطرات لاحق ہیں ان کا سدباب کریں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری ساری قدرومنزلت اسی پاکستان کی بدولت ہے۔حالات کی سنگینی کا اندازہ کریں اس کا مداوا کریں ۔بقول احمد ندیم قاسمی

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو