برطانیہ: مہنگائی کے خلاف تاریخی احتجاج

February 04, 2023

وطنِ عزیزمیں چند روز قبل ہی مہنگائی کا47 سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے،اورحالات ایسے ضرور بن چکے ہیں جو کسی وقت بھی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتے ہیں مگر بہ ظاہر ایسا کوئی امکان نظر اسلئے نہیں آرہا کہ ملک کی تمام بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کےایجنڈے میں غالباً عوامی مفاد کے تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ مہذب معاشروں میں اگر سیاسی جماعتیں اپنا یہ بنیادی کردار نہ بھی ادا کریں تو شہری تنظیمیں، مزدور یونینز ضرور اس باب میں میدانِ عمل میں کود پڑتی ہیں جس کیلئے قیادت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ شہری عوامی حقوق کی جنگ میں خود کو ایک فریق خیال کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں۔اس حقیقت سے اگرچہ انکار ممکن نہیں ہے کہ ان دنوں مہنگائی ایک ایسا سماجی مظہر ہے جس کا کورونا کی عالمگیر وبا کے بعد دنیا کا ہر ملک سامنا کر رہا ہے، جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ برطانیہ بھی مہنگائی کے عالمی رجحان سے متاثر ہوا ہے جس کے باعث اگلے روز برطانوی شہریوں نے دہائی کا سب سے بڑا احتجاج کیااور پانچ لاکھ سے زیادہ شہری مہنگائی کے خلاف اور اُجرت میں اضافے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ خیال رہے کہ ایک روز قبل فرانس میں بھی حکومت کی جانب سے کی جا رہی پنشن اصلاحات کے خلاف 12 لاکھ سے زیادہ شہریوں نے تاریخی احتجاج کیا تھا۔ دوسری جانب برطانوی مزدور یونینز نے وزیراعظم رشی سوناک پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ محنت کش کی تکلیفوں سے آگاہ نہیں ہیں جو کم تنخواہوں، ملازمتوں سے متعلق عدم تحفظ اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی جدوجہدکر رہے ہیں۔ یورپ میں بڑھتا ہوا عوامی غم و غصہ بہارِ عرب کی طرح ایک تحریک میں تبدیل ہو رہا ہےجس کے باعث یورپی حکومتیں عوام دوست اقدامات کرنے پر مجبور ہو چکی ہیـں جس کے اثرات یقیناً ترقی پذیر ملکوں پر بھی مرتب ہونگے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998