معاشی بدحالی کا قصوروار کون؟

February 07, 2023

پٹرول اور ڈیزل 35روپے فی لٹر مہنگے ہو چکے ہیں، ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور اب بھی یہ معلوم نہیں کہ اس کی پرواز کہاں جا کر رُکتی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے 900ارب روپے تک کا فسکل گیپ ہے، آئندہ چند روز میں گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی بے تحاشا بڑھنے والی ہیں۔ ملک میں مہنگائی پہلے ہی 1975 کے بعد 48سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اس وقت ہزاروں کنٹینرز ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث بندر گاہ پر کھڑے ہیں، حالیہ چند ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر میں کمی اور بیشتر چھوٹی بڑی صنعتوں کی بندش اس کے علاوہ ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت، جس میں وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ خزانہ دونوں عہدے (ن) لیگ کے پاس ہیں، کو وجود میں آئے دس ماہ ہونے والے ہیں اور اس سے پہلے تحریک انصاف ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ حکومت میں رہی ، اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ موجودہ معاشی بدحالی کا اصل قصوروار کون ہے، مسلم لیگ (ن) یا تحریک انصاف؟

عمران خان اقتدار سے بے دخل ہونے سے پہلے اتحادی حکومت کے لئے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دے کر معاشی میدان میں بارودی سرنگیں بچھا گئے تھے۔ اُن کے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام سے تقریباً باہر نکل گیا تھا۔ حکومت کے پاس زرِ مبادلہ کے اس قدر ذخائر موجود نہیں تھے کہ بیرونِ ملک سے مہنگا تیل خرید کر عوام کو سستے داموں بیچا جاتا۔ اسی اقدام نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

تحریک عدم اعتماد سے پہلے بھی خان صاحب کی معاشی ٹیم، جس کے چہرے بھی بہت تیزی سے بدلتے رہے، ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ کے دوران ملک کی معاشی پالیسی میں استحکام نہ لا سکی۔ حفیظ شیخ نے اگرکسی سطح پر تھوڑا بہت معاشی ڈسپلن لانے کی کوشش کی تو شوکت ترین نے ریلیف کے نام پر وہ بھی ختم کر دیا۔ کورونا وبا کے دوران ہمیں جو مواقع میسر آئے تھے ، اُن سے فائدہ اٹھا کر معاشی استحکام پیدا کرنے کی بجائے ہم رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سبسڈی دیتے رہے۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ نہ تو ہماری برآمدات بڑھاتا ہے اور نہ ہی معاشی استحکام کے حصول میں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے۔ پاکستان میں یہ شعبہ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور سارا کالا دھن بھی اسی شعبے میں کھپا دیا جاتا ہے۔ خان صاحب نے پاکستان کو دیوالیہ کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ خان صاحب کے حامی اکثر یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب چھ فیصد کی شرح نمو چھوڑ کر گئے تھے، یہ اشاریے نامکمل ہیں، شرح نمو درآمدات کا بڑھتا ہوا حجم تھا جو تب روز افزوں تھا جب کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی مسلسل بڑھ رہا تھا۔ عوامی سطح پر بھی ہماری معاشی سمجھ بوجھ غلط نظریات پر مبنی ہے، ہم ملک میں مہنگی درآمدی گاڑیوں اور بڑے بڑے برانڈز کی موجودگی اور ڈالر کی قدر میں معمولی کمی کو بڑی معاشی ترقی سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

پی ڈی ایم کے اتحادیوں، تمام معاشی ماہرین اور خود خان صاحب کو یہ معلوم تھا کہ اُنہوں نے اگرپٹرولیم مصنوعات پر دی جا رہی سبسڈی واپس نہ لی اور آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس سے پہلے آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے حوالے سے کبھی روایتی طور پر سخت نہیں رہا لیکن اُس کی شرائط سے انحراف کی صورت میں ہمیں نئی قسط کے حصول میں جس تاخیر کا سامنا کرنا پڑا وہ ہمیں لے ڈوبی لیکن بالآخر آئی ایم ایف کی شرائط مان کر اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرکے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا۔ اس تاخیر کا ذمہ دار (ن) لیگ کو ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن اسے اس قدررعایت ضروردی جا سکتی ہے کہ اُس نے جان بوجھ کر پاکستان کے معاشی مستقبل کو دائو پر نہیں لگایا اور خان صاحب کی طرح اپنی سیاست بچانے کے لئے ملک کو دیوالیہ پن کے خطرات سے دوچار نہیں کیا۔ اس دوران خان صاحب ہر وہ حربہ استعمال کرتے رہے جس سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو ،تاکہ ملک کے معاشی حالات کو سنبھالنا مزید مشکل ہو جائے۔

مفتاح اسماعیل معیشت کے حوالے سے تمام مشکل فیصلے کرچکے تھے، اب اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر چلتا اور طویل المدتی معاشی اصلاحات کی طرف جاتا تو معاملات بہتر ہو سکتے تھے۔ لیکن تب ڈار صاحب کو اپنی ہی جماعت کے وزیر خزانہ سے مسئلہ تھا جو اُن کی طرح لندن نہیں بھاگا تھا اور پی ٹی آئی کے دورِ اقتدار میں جیل جا کر سیاسی قیمت چکائی۔ تب ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ میں ڈالر کو مزید نیچے لا سکتا ہوں، ملکی معیشت کو بہتر طور پر چلا سکتا ہوں، کچھ اینکر حضرات بھی جو ڈار صاحب کی تائید اور مفتاح اسماعیل پر تنقید کرتے تھے، آج بالکل خاموش ہیں۔ مفتاح اسماعیل کو بالآخر وزارت سے ہٹا دیا گیا اور اُن کی جگہ ڈار صاحب ایسے طمطراق سے وطن واپس لوٹے جیسے اُن کے واپس آنے ہی سے معیشت سنبھل جانی تھی، پھر ڈارونامکس تھی اور پاکستان۔ ڈار صاحب نے انتظامی سطح پر ڈالر کی قیمت قابو میں رکھنے کی کوشش کی، اس سے آئی ایم ایف کو بھی ناراض کیا۔ اس دوران وہ دوست ممالک پر تکیہ کئے بیٹھے رہے لیکن اُن کی امیدیں پوری نہ ہو سکیں۔ آخر کار چار ماہ ضائع کرنے کے بعد جس میں ڈالر کی بلیک مارکیٹ بھی بن چکی تھی، ترسیلاتِ زر میں نمایاں کمی آ چکی تھی، برآمدات بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئیں، زرِ مبادلہ کے ذخائر نو سال کی کم ترین سطح 3 ارب ڈالر پر آ گئے، ڈار صاحب نے آخر کار ڈالر کو آزاد چھوڑا اور آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔ اس طرح ڈار صاحب کی غلط حکمتِ عملی سے ایک بار پھر (ن)لیگ کو مشکل معاشی فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ یقینی ہے۔

اس سب کے بعد (ن)لیگ اور بالخصوص ڈار صاحب کو لانے والوں کے لئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ اصل غلطی تحریک انصاف نے کی، (ن)لیگ کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن یہ تاخیر قابلِ ادراک قرار پا سکتی ہے۔ ڈار صاحب کی غلط حکمتِ عملی نے اب ملکی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد اصلاحات نہ کرنا وہ غلطی ہے جو پاکستان کی ماضی کی سب حکومتوں نے کی ہے اور اب دہرائی نہیں جا سکتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)