بھاگا نہیں جا سکتا

February 28, 2023

ابھی سری لنکا دیوالیہ نہیں ہوا تھا مگر سری لنکا کے حالات ابتر تھے۔مستقبل بین اس کا احساس رکھتے تھے۔ اسی دوران کولمبو میں ایک تقریب منعقد ہوئی ۔ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اسی اثناء میں ایک معاشی دانشور کو اسٹیج پر بلایا گیا تو ہال میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے احتراماً کھڑے ہو گئے اور تالیوں کی آواز پورے ہال میں گونجنے لگی۔ دانشور نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر گویا ہوا تو ہال میں سکوت طاری ہوگیا۔ گفتگو کے آغاز ہی میں اس نے سری لنکا کے معاشرے میں موجود کرپٹ نظام کی طرف توجہ مبذول کرائی ۔ کہنے لگا کہ’’اگر آج میں سری لنکا کے معاشرے کو ایک لیبل دوں تو یہ تقریباً پچھلے 75 سال سے بری طرح کرپٹ لوگوں کے شکنجے میں ہے۔ بحیثیت قوم ہماری مجموعی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہم مسلسل پیچھے کی جانب جا رہے ہیں ۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سری لنکا اس وقت تباہی کے دہانے پر آن کھڑا ہے نا صرف معاشی تباہی بلکہ اخلاقی طور پر بھی گراوٹ کا شکار ہے ۔ اخلاقیات کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گیا ہے اور ہم صحیح اور غلط کے فرق سے مکمل غافل ہو گئے ہیں ۔ لوگوں میں انصاف کے حصول کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور انصاف کا احساس اس وقت مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ۔ ایک ہیجانی سی کیفیت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ملک میں موجود اشرافیہ اور اعلیٰ ترین قیادت اس بات سے بے نیاز ہے کہ ملک کس ڈگر پر چل رہا ہے ۔ اس ملک کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر نچلے طبقے تک معاشرے کا حال عجیب و غریب ہے۔ پیسے کے حصول کیلئے تمام طبقات حد سے گزر جاتے ہیں‘‘ ۔ کچھ دیر کیلئے معاشی دانشور نے توقف کیا اور پھر قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی خاطر کاٹ دار الفاظ میں کہا’’ یہ کس طرح کی آزادی ہے جس کا جشن ہم 4 فروری کو جوش اور ولولے سے مناتے ہیں ۔ 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، کہیں پرچم کو لہرایا جاتاہے تو کہیں سڑکوں پر فوجی دستوں کی پریڈ دکھا کر ہم دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم ایک عظیم ملک ہیں ۔ حالیہ صورتحال کی اگر بات کی جائے تو تاریخی طور پر ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ ان میں سے سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ جب کھلا اقتصادی نظام ملک میں متعارف کروایا جا رہا تھا تو مقامی اداروں کو مکمل طور پر گلے لگایا گیا ۔ سری لنکا میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی تقریباً ہر چیز کو بیرونی ممالک سے درآمد کر کے اسے ایک منحصر معیشت بنایا گیا ۔ اگر آپ اس وقت بھارت کی معیشت کا جائزہ لیں تو تجارتی خسارہ مکمل طور پر ان کے حق میں جاتا ہے لہٰذا بھارت ، چین کے ساتھ تجارتی خسارے کی بحث میں برابری نہیں رکھتا ۔ ہماری مجموعی حالت یہ ہے کہ ہم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ ہم حالات کا صحیح رخ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں ۔ میں یہ سب اس لئے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ آپ کو نقصانات کا حقیقی ادراک ہو سکے۔ ہمارا ملک جس قدر قرضوں میں ڈوبا ہوا ہےاس سے راہ فرار مشکل ہے ۔ اب وقت ہے کہ ہمیں قرضوں کی اس دلدل سے نکلنا ہو گا مگر ملک مزید قرضے لینے کا خواہاں ہے‘‘۔

معاشی دانشور نے آئینہ دکھایا مگر سری لنکا کی اشرافیہ نے کوئی سبق نہ سیکھا پھرنتیجہ یہ نکلا کہ سری لنکا دیوالیہ ہوگیا۔ چند روز پہلے مجھے ایک ٹی وی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن ہمارے پیارے راوین وقاص اکرم شیخ فرما رہے تھے کہ’’اس وقت پاکستان کو کاریگروں کی ضرورت ہے جو پاکستان کو چلا سکیں ۔ جو کہانیاں نہ سنائیں ، جو تقریریں نہ کریں جو صرف کام کریں۔ ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہاں باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ اب تو ہر پارٹی سے آواز آ رہی ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں بلکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ٹیکنیکلی ڈیفالٹ کر چکے ہیں ۔ یہ جو کچھ عرصہ پہلے ماہرین کے روپ میں آئے تھے انہوں نے تو حد ہی کردی ہے ۔ ممبران اسمبلی کو سوچنا چاہیے کہ انہیں لوگ ووٹ دے کر اسلام آباد بھیجتے ہیں ، مہنگی گاڑیوں میں بٹھاتے ہیں اسلئے نہیں کہ ان کی شکلیں زیادہ خوبصورت ہیں بلکہ وہ تو اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ ان کے کام ہو سکیں ۔ اب اس وقت جیک جنریشن آگئی ہے ،جیسے ایک لیڈر کا بیٹا ایک سیٹھ کے جہاز استعمال کرتا ہے تو دوسرے لیڈر کے بچے کبھی جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں ۔ جس ملک میں کھانے کیلئے روٹی نہیں ، لوگوں کے پاؤں میں جوتےنہیں وہاں حکمرانوں کے بچے پرائیویٹ جہازوں پر سفر کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں کی اشرافیہ کا عوام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ عوامی مسائل سے اس ملک کی اشرافیہ کا تعلق برسوں پہلے ٹوٹ گیا تھا اب صرف لڑائی باقی ہے ‘‘۔

میں نے سری لنکا کے ایک معاشی دانشور کی گفتگو آپ کی خدمت میں پیش کی اور پھر ایک پاکستانی سیاستدان کی باتیں سنائیں ۔ حالات ہمارے ہاں بہت مخدوش ہیں ۔ لوگوں کا زندگی سے رشتہ بحال رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر طرف بھوک بکھری پڑی ہے ۔ غربت بازاروں سے ہوتی ہوئی گھروں تک آن پہنچی ہے۔ انہی حالات کے پیشِ نظر ایک شاعر کہتا ہے

زندگی ہے کہ اک حسین سزا

زیست اپنی ہے غم پرائے ہیں

ہم بھی کن مفلسوں کی دنیا میں

قرض کی سانس لینے آئے ہیں

یہی باتیں عمران خان کر رہا ہے ۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں سب سے طاقتور آواز عمران خان کی ہے، وہ جب بولتا ہے تو اس کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اترتی ہیں ۔ ابھی آپ نے جام پور دیکھا ہے ۔ کچھ عرصہ بعد آپ پورا ملک دیکھیں گے۔ بھاگنے والے کہاں تک بھاگ سکتے ہیں ۔ الیکشن ہو کر رہیں گے اور عمران خان کی جیت الیکشن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

اس وقت پاکستانی عوام اور اشرافیہ کا جو تعلق ہے اسے نوشی گیلانی کا یہ شعر واضح کر رہا ہے۔

محبت میں کہیں گم ہو گیا ہے

مرا تجھ پر یقیں کم ہو گیا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)