قبرستان بنادیا ہے!

March 24, 2023

قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرماتے ہیں ،’’ عزت و وقار انسان اور انسانی زندگی کا ہوتا ہے اداروں کا عزت و وقار نہیں ، ذمہ داریاں ہوتی ہیں‘‘ ۔ قائد اعظم کے اس فرمان کی روشنی میں وہ تمام ادارے اپنا جائزہ لیں جو سارا سال اپنے عزت و وقار کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں یا نہیں ۔ ادارے اگرصرف عزت و وقار ڈھونڈ رہے ہیں تو وہ قائد کے فرمان کی نفی کر رہے ہیں ۔ اور اگر ادارے ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے تو پھر وہ قائد کے فرمان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 11اگست 1947کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ،’’ انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم بنا سکتے ہیں‘‘ ۔ بدقسمتی سے یہاں قائد اعظم کے رہنما اصولوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ نہ تو معاشرے میں مساوات نظر آئی اور نہ ہی کہیں انصاف نظر آیا۔ مساوات کے نام پر بھی نت نئے ڈھونگ رچائے گئے اور غریبوں کے لئے انصاف بھی ایک نعرے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ جب قائد اعظم کے رہنما اصولوں پر عمل ہی نہیں ہو سکا تو پھر عظیم قوم بننے کا خواب بھی کہیں راستے میں کھو گیا۔

پاکستانی معاشرے کو حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہاں صرف چند خاندانوں کی اجارہ داری یا حکومت رہی ہے کیونکہ حکومتی وسائل ان خاندانوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت میسر آتے رہے۔ دوسری طرف غریبوں کی بستیاں چراغ ڈھونڈتی رہیں ۔ پاکستان کی دولت چند خاندانوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ انہی خاندانوں کو قرضے ملتے رہے انہی کے قرضے معاف کر دئیے گئے اور انہی کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا گیا ۔ یہی وہ ظلم ہے جس کا خمیازہ عام پاکستانی بھگت رہے ہیں ۔ آج پاکستانی معیشت کا جو حال ہے وہ انہی امیر زادوں کے سبب ہے۔ آج اگر معاشی حالات برے ہیں تو اس میں غریبوں کا کوئی دخل نہیں ۔ غریبوں کے بچے تو پیدا ہوتے ہی مقروض ہو رہے ہیں ۔ اکیسویں صدی کا کیا خوبصورت لطیفہ ہے کہ جن کے ہاں مقروض بچے پیدا ہو رہے ہیں انہوں نے قرض لیا ہی نہیں۔

چند روز پہلے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران ملک کے نامور صحافی مجیب الرحمٰن شامی کہنے لگے ،’’ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان پر کبھی یہ افتاد پڑے گی۔ جن حالات سے معاشرہ آج کل گزر رہا ہے ان حالات کا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ یقین کیجئے معاشرے کے وہ لوگ جو خوشحال تھے آج وہ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں ۔ سفید پوش طبقے میں تیزی سے اترتی ہوئی غربت نے ہمارا چہرہ بھیانک بنا دیا‘‘۔ شامی صاحب کی باتیں درست ہیں کیونکہ اس عہد میں اگر مزدور کے پاس کچھ نہیں تو مل مالک بھی کنگلا ہو گیا ہے ۔ چھوٹے صنعت کاروں کو حالات کھا گئے ان کی فیکٹریاں ایک سال سے مقفل ہیں ۔ میرے دوست نعیم الدین کہتے ہیں کہ ’’میرے بچے کسی دوسرے ملک شفٹ ہونا چاہتے ہیں مگر میں ان سے کہتا ہوں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ہمیں یہیں رہنا چاہئے ۔مگر وہ روز کسی نہ کسی ڈکیتی کا قصہ سناتے ہیں۔ میں پھر بھی ان سے کہتا ہوں کہ یہ پیارا پاکستان ہے، اسے نہیں چھوڑنا ہمیں یہیں رہنا ہے۔ لیکن ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ میرے پیارے پاکستان کو لوٹنے والوں نے اسے قبرستان بنا دیا ہے۔ یہ لوگ ملک سے باہر رہتے ہیں ان کی جائدادیں، پیسہ باہر پڑا ہے۔ پاکستان میں یہ صرف قبریں بناتے ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ ابھی حال ہی میں پرویز مشرف کی تدفین کراچی میں کر دی گئی۔ وہ رہتا دبئی میں تھا مگر قبر کراچی میں بنی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے والدین اور ان کی بیگم ملک سے باہر رہے مگر تدفین کے لئے ان کے تابوت پاکستان آگئے۔ اس خاندان کی جائدادیں اور پیسہ بھی باہر پڑا ہے۔ کیا ان لوگوں نے پاکستان کو صرف قبرستان سمجھ رکھا ہے‘‘. میرے دوست کی باتیں درست ہیں مگر ان لوگوں نے پاکستان کو صرف قبرستان ہی نہیں سمجھ رکھا بلکہ لوٹ مار کا ایک ذریعہ بھی سمجھ رکھا ہے ۔ وہ یہاں کی حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں ، پیسہ بناتے ہیں اور یہی پیسہ لے کر مغربی دنیا کو آباد کرتے ہیں ۔ زندگی باہر گزارتے ہیں مگر جب موت آجائے تو پھر تدفین کے لئے تابوت پاکستان بھجوا دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی معاشی امور کے ماہر ہیں ۔ میرا ان سے تعارف پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا تھا ۔ پاکستان میں غریبوں کی حالت سدھارنے کے لئے قیصر بنگالی نے متعدد بار پروگرام بنا کر حکومتوں کو دیے مگر یہاں کی حکومتیں لوگوں کے لئے کچھ نہ کر سکیں۔ پچھلے دنوں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی کہنے لگے،’’پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر کی بحث فضول ہے دراصل یہاں کے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے۔ مختلف مافیاز پر مشتمل ایک ٹولہ حکمرانی کرتا ہے ، عوام کو لوٹتا ہے ۔یہ طبقہ پاکستان کے وسائل کو لوٹتا ہے ۔ یہ لوٹ مار عوام کے نام پر ہوتی ہے ۔ یہ حکمراں ٹولہ عوام کا خون چوس رہا ہے ۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی خواہ مخواہ بحث چھیڑی ہوئی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے اب اس ٹولے کو توڑنے کے لئے بغاوت کرنا پڑے گی، سڑک پر آنا پڑے گا۔‘‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے یہ باتیں بڑے دکھ سے بیان کی ہیں انہی دکھوں کو برسوں پہلے ایک شاعر سرور ارمان نے بیان کیا تھا۔ آئینہ دکھانے کے لئے ان کی پوری غزل پیش خدمت ہے:

روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی

رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی

عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں

بے گنا ہی لائق تعزیر کر دی جائے گی

ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر

ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی

دب کے رہ جائینگے جذبوں کے اجالے ایک دن

ظلمت افلاس عالمگیر کر دی جائے گی

ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا

آشنائے حلقہ زنجیر کر دی جائے گی

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن

تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی

دفن کر کے اس کی بنیادوں میں انسانوں کے سر

اک مہذب شہر کی تعمیر کر دی جائے گی