آئی ایم ایف کی ناراضی؟

March 26, 2023

حکومت کے ایک اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرانے کا مطالبہ کردیا ہے کہ ملک میں غریب کو روٹی میسر نہیں اور الیکشن کیلئے 80 ارب روپے مانگے جارہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی مردم شماری اورانتخابی فہرستوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے ۔یہ مسائل وزیراعظم کیلئے سلجھانا مشکل نظر آتے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کی نفرت اور انتشار پر مبنی سیاست بھی ملک کیلئے مسائل کا سبب بنی ہوئی ہے ،امریکی سازش سے قاتلانہ حملے تک وہ اپنے تمام الزامات اب واپس لے رہے ہیں لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہو رہا ۔ عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ اور کرپشن سمیت مجموعی طور پر 75 مقدمات درج ہیں لیکن وہ ہر مقدمے میں مطلوب ہونے کے باوجود گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں ،لیکن پیمرا کا عمران خان سے متعلق فیصلہ بھی حکومت کیلئے ایک نیا درد سر ہے اور اس سے آزادیٔ اظہار کے آئینی حق کا سوال بھی پیدا ہوا ہے ۔ حالات اسی سمت آگے بڑھتے رہے تو سیاسی خلفشار میں مسلسل اضافہ یقینی ہے جو آئی ایم ایف بھی دیکھ رہا ہے۔قومی معیشت کودلدل سے نکالنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ۔لہٰذا حکمران اتحاد اور اپوزیشن کو مل کر یہ مسائل حل کرنے چاہئیں ورنہ روپیہ ،ڈالر کے مقابلے میں گرتا چلا جا ئے گا۔حالیہ دنوں میں ایک ہی دن میں ڈالر کا ریٹ 18روپے بڑھ جانے کا تعلق فلور ملز اور حکومت سندھ سے تھا ۔ملز ایسوسی ایشن چاہتی تھی کہ حکومت سندھ آٹے کی قیمت کنٹرول کرنے کیلئے اقدام نہ کرے، دوسرا ظلم اسٹیٹ بینک نے یہ کیا کہ بنیادی شرح سود میں 3 فیصد کا نمایاں اضافہ کر دیا،جس سے بنیادی شرح سود17سے 20 فیصد ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ امید ہو چلی تھی کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط حکومت نے پوری کر دی ہیں اور جلد اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا مگر آئی ایم ایف نے معاہدے سے انکار کر دیا ۔ اس وقت ملک میں چار نہایت اہم منظرنامے ہیں ۔پہلا منظر نامہ ملکی معیشت اور آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،دوسرا منظر نامہ ہر روز رنگ بدلنے والی عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے جنہوں نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاہم انہوں نے انکار کر دیا ،تیسرا منظر نامہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے تعلقات ،چوتھا منظر نامہ اہم افراد کی گرفتاریوں سے متعلق ہے ۔معاشی مشکلات کا شکار پاکستان جون تک اربوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی فکر میں ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔1960ء میں فرانس نے کانگو کو آزاد کیا بعد میں اس نے اپنا سفیر وہاں تعینات کر دیا۔ ایک مرتبہ فرانسیسی سفیر شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلا ت میں نکل گیا۔جنگل میں چلتے چلتے سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ سمجھا شاید میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے۔ انہوں نے فرانسیسی سفیر کو پکڑ کر ذبح کردیا اورکھا گئے ۔فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ وہ سفیر کے ورثاء کو (کئی) ملین ڈالر خون بہا ادا کرے۔ کانگو کی حکومت سر پکڑکر بیٹھ گئی۔ خزانہ خالی تھا، ملک میں غربت و قحط سالی تھی۔ بہرحال کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا، جس کی عبارت کچھ یوں تھی’’کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے، چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے یہ تجویز رکھتے ہیں کہ ہمارا جو سفیر آپ کے پاس ہے، آپ بدلے میں اسے کھا لیں۔ والسلام‘‘پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھے، جس کا مضمون کچھ یوں ہونا چاہئے’’پچھلے75برس میں ہماری اشرافیہ نے جو قرضے لئے ہیں، وہ آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں، ہم آپ کے قرضے تو واپس نہیں کر سکتے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بینک بیلنس، اثاثے اور بچے مغربی ممالک میں ہیں، بدلے میں آپ وہ رکھ لیں‘‘۔ان قرضوں میں ہمارا بال بال جکڑا ہوا ہے ہمارے سابق وزیر خزانہ جو مشرف کے بعد آتے رہے ایک ایک کر کے ساری چیزیں گروی رکھواتے رہے ہیں ۔سوائے ہمارے ایٹمی پروگرام کے جس پر آپ کی نظریں گڑی ہوئی ہیں ۔آئی ایم ایف کے ہم نے جائز ناجائز مطالبات نہ صرف مان لئے بلکہ قسط آنے سے پہلے ہی عوام پر 400ارب روپے کا ٹیکس لگا دیا ،بجلی کی سبسڈی واپس لے لی ،تمام سبسڈیاں ایک ایک کر کے واپس ہو چکی ہیں مگر آئی ایم ایف کے مطالبات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہے۔اب ان سے کہا جائے کہ جناب ہم اپنے عوام پر تو ظلم کر چکے ہیں ،آپ ہماری اشرافیہ کے لئے بھی کچھ پابندیاں لگا دیجئے کہ ان کے اربوں روپے آپ ہی کے ملکوں کے بینکوں میں محفوظ ہیں ۔آپ ہمارے عوام کی تکلیف دور نہیں کر سکتے کم از کم ان کے پیسوں کو پاکستان واپس بھجوادیں تو ہم آپ کی ساری شرائط بغیر حیل و حجت مان لیں گےکیونکہ تمام کرپٹ سیاستدانوں واشرافیہ نے آپ ہی کے ملکوں میں اپنا پیسہ چھپا رکھا ہے اور یہ سارا پیسہ پاکستانی عوام کا ہے۔اس سے زیادہ ہم عوام پر ظلم نہیں کرسکتے ۔آپ ہمیں امداد دیں یا نہ دیں ۔یہ قوم سے ہمارا وعدہ ہے کہ ہم ان سیاستدانوں کے چھپائے ہوئے کھربوں ڈالر اپنے ملک میں واپس لاکر ان کو عوام کی بہتری پر خرچ کریں گے۔