اب کسے رہنما کرے کوئی

March 26, 2023

نیلسن منڈیلا کو اس لیے ہیرو مانا جاتا ہے کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کی۔ سفید فام حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے انہیں 27 سال تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ انہوں نے اس دوران بھی بنیادی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد جاری رکھی۔ 1993 میں جب امن کے نوبل انعام کا اعلان ہوا تو جیتنے والے دو لوگ تھے، نیلسن منڈیلا اور ڈی کلارک۔ ڈی کلارک اس وقت جنوبی افریقہ کا سفید فام صدر تھا جس کے بارے میں نیلسن منڈیلا کے حامیوں کی کوئی اچھی رائے نہ تھی۔ منڈیلا کے مشیروں نے انہیں یہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کرنے کی صلاح دی اور کہا کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ نوبل انعام وصول نہیں کیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے آپ کو جیل میں ڈالا گیا اور جس کی پارٹی کے لوگ ہمارے فالوورز کو آج بھی قتل کر رہے ہیں۔ اس پر نیلسن منڈیلا نے اپنے ایڈوائزرز کو جواب دیا کہ مفاہمت آسان نہیں ہوتی، بڑے مقصد کے لیے مخالفین کو گلے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے ڈی کلارک کے ساتھ ایک ہی تقریب میں ایوارڈ وصول کیا اور ذاتی انتقام پر اکسانے والوں کے مشوروں سے پرہیز کیا۔ منڈیلا اگر جیل سے باہر آ کر دشمنی اور بدلہ لینے پر اڑ جاتے تو انہیں کسی نے نہیں روکنا تھا، ان کی جماعت مضبوط ہو چکی تھی اور ملک کے سیاسی نقشے پر بتدریج اپنی موجودگی کو نمایاں کر رہی تھی۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے لڑائی جھگڑے میں پڑنے کی بجائے مل جل کر کام کرنے کو ترجیح دی اور اسی وجہ سے پوری دنیا میں ان کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔قوم کا لیڈر بننا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے صرف ذہانت، تعلیم یا دیانتداری ہی درکار نہیں ہوتی۔ رواداری اور اخلاص وہ خصوصیات ہیں جو اگر رہنماؤں میں موجود ہوں تو قوموں کے عروج اور دوام کو یقینی بناتی ہیں۔ لیڈرز کا رویہ نیلسن منڈیلا جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان کی طبیعت میں خود غرضی، انا اور ضد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عظیم رہنما ذاتی رنجشوں کی بنا پر اجتماعی نقصان نہیں کیا کرتے۔

حضرت محمدؐ پر پتھر پھینکے گئے، آپ کوشہید کرنے تک کی کوشش کی گئی لیکن جب فتح مکہ نصیب ہوئی تو آپ ؐ نےسب کو معاف کر دیا ۔کیا اس موقع پر آپؐ کے ذہن میں یہ نہیں آیا ہو گا کہ یہ وہی مخالفین ہیں جنہوں نے میرے ساتھیوں کا تین سال تک معاشرتی بائیکاٹ کیا تھا؟در اصل آپؐ کا مقصد انتقام لینا نہیں تھا، اور یہ آپؐ ہی کا ظرف تھا کہ اختیار ہوتے ہوئے بھی سخت ترین مخالفوں سے کوئی باز پرس تک نہ کی۔ یہ رواداری اور برداشت کی ارفع ترین مثال ہے۔ رواداری اور برداشت ایسی خصوصیات ہیں جو معاشرتی فضا میں آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی کمی گھٹن زدہ ماحول پیدا کرتی ہے جس سے فکری نشوونما رک جاتی ہے۔ وینٹی لیٹر پر موجود ہمارے معاشرے کو اس وقت اسی آکسیجن کی ضرورت ہے جو سیاسی بنیادوں پر بکھری قوم کی اکھڑتی سانسوں کو بحال کر سکے۔ ہم اس قدر پولرائز اور نقطہ ہائے نظر میں غیر متزلزل ہو چکے ہیں کہ طبیعت کے خلاف درست بات بھی گالی لگتی ہے، برداشت نہیں ہوتی۔ حکومت سے پوچھئے تو نقصان کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرائے گی، حزب مخالف سے سوال کریں تو حکومت کو مسائل کی جڑ قرار دے گی ۔ کوئی ہمارے رہنماؤں کو بتائے کہ مخالفین کی اچھی پالیسیوں کی تعریف کرنا بری بات نہیں ہوتی۔ ذاتی رنجشیں پس پشت ڈال کر اجتماعی مقاصد کے لیے بیٹھ جانا بڑے لیڈرز کا شیوہ ہے۔ دن رات کے لڑائی جھگڑوں اور تنقید برائے تنقید سے، پہلے سے پریشان عام آدمی مزید ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہا ہے۔ عوام کو ذاتی لڑائی میں مستقبل سے نا امید نہ کریں۔ حقائق کو مسخ کر کے الزام لگانے سے سیاہ سفید نہیں کہلائے گا۔ غلطیوں کو درگزر کر کے ان کی اصلاح پر بات کریں۔ گفتگو سے مسائل کا حل نکلے گا نہ کہ مخالفین کے لئے نت نئے القابات ایجاد کر کے۔ یاد رکھیں، سچا لیڈر رواداری اور برداشت کو فروغ دیتا ہے۔ وہ نفرت کی بنیاد پر جھوٹے وعدوں کی عمارت تعمیر کر کے اس پر خیالی جنت کے موجود ہونے کے خواب نہیں دکھاتا۔