ریاستی اداروں میں تصادم کا خدشہ؟

April 02, 2023

ریاست کا ڈھانچہ 4 ستونوں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور پریس پر کھڑا ہے ان میں سے کوئی ایک ستون بھی اگر کمزور ہو جائے یا گر پڑے تو پوری ریاست منہدم ہو سکتی ہے لہٰذا کسی ریاست کی مضبوطی کے لیے ان چاروں ستونوں کا توانا اور مضبوط ہونا بھی ضروری ہے لیکن پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہے ، پاکستان میں معاملہ مگر مختلف ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات 8اکتوبر2023ء تک ملتوی کر دیے، ملکی سیاست میں ایک بار پھر بھونچال آگیا سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 90روز کے اندر انتخابات کرانے کے لئے شیڈول جاری کرنے کا اعلان کرنے کی ہدایت کر رکھی تھی جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30اپریل 2023ء کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے لئے شیڈول بھی جاری کر دیا، خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں کچھ تاخیر ہوئی بعدازاں الیکشن کمیشن نے حالات سازگار نہ ہونے اور ممکنہ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر 22مارچ2023کو پنجاب اسمبلی کے30اپریل 2023ء کو ہونے والے انتخابات 5ماہ کے لئے ملتوی کر دیے ۔ وزارت داخلہ کے مطابق ،فوج اندرونی سکیورٹی ، اہم تنصیبات کی حفاظت اور غیر ملکی شہریوں کی حفاظت پر مامور ہے، سیاست دان دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں ،سیاسی رہنمائوں کو الیکشن مہم میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا، وزارت خزانہ کے مطابق ملک میں معاشی بحران ہے آئی ایم ایف کی شرائط ہیں جس کے باعث حکومت کے لئے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے فنڈز جاری کرنا مشکل ہو گا،خیبر پختونخوااور پنجاب اسمبلی کے انتخابات 5ماہ کے لئے ملتوی کرنے پر پی ٹی آئی نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔پی ٹی آئی نے اگلے روز ہی سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا،پہلے ہی روز سپریم کورٹ نے الیکشن التوا کیس میں حکومت کی جانب سے فنڈز نہ ہونے اور دہشت گردی کے سبب انتخابات ملتوی کرنے کے موقف کو مسترد کر دیا ، اسی روز پارلیمان میں الگ عدالت لگ گئی جہاں حکومتی ارکان نے دھواں دھار تقاریر کیں وہا ں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زردری نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا، ان کی تقاریر سے یہ تاثر ملا کہ مقننہ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کیس کی سماعت کے دوران ہی وفاقی کابینہ نے موجودہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی حکمت عملی اختیار کی جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف نے غالباً پہلے سے تیار شدہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023 ء کے مسودہ قانون کی فوری منظوری دے دی جسے اسی رات قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جہاں سے اسے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا گیا ۔دلچسپ امر یہ ہے مجلس قائمہ نے بھی یہ بل اگلے روز ہی منظوری کے بعد واپس قومی اسمبلی کو بھجوا دیا اس بل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ سے بھی منظوری مل گئی ۔یہ بل تو ثیق کے لئے صدر مملکت کی میزپر ہے ،صدر مملکت کچھ دنوں تک پارلیمان سے منظور شدہ قانون کی تو ثیق روک سکتے ہیںوہ بل کو دوبارہ غور کیلئے پارلیمان کو واپس بھجوا سکتے ہیںلیکن دوسری بار پارلیمان سے منظور ہونے والے بل کو قانون کی حیثیت حاصل ہو جائے گی ۔

ترمیمی بل کے مطابق از خود نوٹس کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر جج صاحبان پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کرے گی بنچ کا فیصلہ کثرت رائے سے ہو گا۔ ترمیمی بل کے تحت از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق ہو گا اور 30دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ اپیل کو دو ہفتوں میں فکس کیا جائے گا ،اپیل کی سماعت لارجر بنچ کرے گا اپیل کے لئے سماعت 14دن کے اندر ہو گی ۔آئین کے آرٹیکل 188کے تحت نظر ثانی کی اپیل کے لئے فریق کو اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق حاصل ہو گا تاہم وکیل کا ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہونا لازمی ہے۔ اعظم نذیرتارڑ کا کہنا ہے جو مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر ہو گا کمیٹی طے کرے گی کہ معاملہ انسانی حقوق کا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے لیکن ان کی درخواست کو پذیرائی نہیں ملی البتہ جسٹس امین الدین نے جسٹس فائز عیسیٰ بینچ کا فیصلہ آنے کے بعد خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ اگلے روز جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بنچ سے الگ ہو گئے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے کہ نہیںلیکن اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔ ایک طرف سپریم کورٹ الیکشن التوا کیس سن رہی ہے تودوسری طرف قومی اسمبلی نے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت غیر جانبدار حکومتوں سے کرائے جائیں ۔سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت سیاسی عدم استحکام کا باعث ہے۔ قراردادمیں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد و خود مختار اور آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 218کے تحت آزادانہ و شفاف انتخابات کروانے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے۔ آئینی ماہرین نےاس رائے کا برملا اظہار کیا ہے کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کرنے کا اختیارحاصل ہے لیکن اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل حکومت اور عدلیہ کے درمیان مشاورت کر لی جاتی تو قانون میں ترمیم تمام اسٹیک ہولڈر خوش دلی سے قبول کر لیتے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا کہ چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی قانون سازی کی’’ ٹائمنگ‘‘ ایک ’’سوالیہ نشان‘‘ ہے ،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بل پر دستخط کرتے وقت صدر مملکت کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں؟ یہ بل ایک ایسے وقت پر منظو ر کیا گیا ہے جب ریاستی اداروں کے درمیان ’’تنائو ‘‘ کی کیفیت ہے جو کسی ایک ادارے کی غلطی سے تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے لہٰذا ریاستی اداروں کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔