بااثر پارلیمان اور پُراثر میزان کے چیلنجز !

April 02, 2023

پہلی دفعہ لگا کہ پارلیمنٹ میں ہمارے سیاستدان ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغ نہیں۔ پہلے تو فقیر نے یہاں تک سوچاکہ یہ بجھ بھی جائیں تو شکایتیں کیسی ؟ اچانک احساس ہوا کہ ذرا نم ہو تو واقعی یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ جن کی چھاتی پر حالیہ قانون سازی سے نے مونگ دلی ہے، وہ ذرا غیر جانبدار ہو کر سوچیں ، تو ان کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، کیونکہ ارتقائی سیاسی صداقت عامہ ہمیشہ سے مطالبہ کرتی ہے ، کہ آئین سازی و آئینی ترامیم وقت کے سنگ سنگ چلتی رہنی چاہئیں!یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ڈائیلاگ ہمیشہ قانون سازی کے راستے ہموار کرتا ہے بشرطیکہ لیڈر شپ کو اس کا ادراک ہو، اور وقت کے سنگ سنگ ہونے والی قانون سازی کی اہمیت کا علم ہو، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم توانا اور دانشمند آواز کو دبانا اپنی آگہی کی فتح اور ذات کی تسکین سمجھتے ہیں جو حقیقت میں وہ جرم ہے جو آگے جاکر کوڑھ کی کاشت کو بڑھوتری دیتا ہے !

کبھی کبھی حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ، وہ سیاستدان جو کسی بھی پروفیشنل، ٹیکنوکریٹ یا بیورو کریٹ سے زیادہ ریاضت اور فراست رکھتا ہے، کسی بھی جرنیل یا جج سے زیادہ ملنسار، معاملہ فہم، صابر اور شاکر ہوتا ہے، وہ کیسے اسٹیبلشمنٹ کے جال میں پھنس جاتا ہے؟ فرض کریں وہ حصولِ اقتدار کی خاطر وقتی طور پر پھنس بھی جائے تو واپسی کا راستہ بھولتا ہے نہ جمہوری منزل کا بشرطیکہ اس میں حقیقی لیڈر شپ کے جراثیم موجود ہوں۔ چلئے یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ صرف بیس سے تیس فی صد سیاست دان فہیم ہوتے ہیں، پھر بھی یہ بہت بڑی تعداد ہے کسی بھی ریاست کو جمہوری گل و گلزار بنانے کیلئے کیونکہ سیاست دان ممکن اور ناممکن کی مقدار سے آشنا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سیاست ممکن اور ناممکن میں فرق کا ہنر سکھاتی ہے، عوامی میل جول ، صبر ، باہمی تعاون اور خودمختاری ایک حقیقی سیاست دان کو ہرقسم کے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے اور سرخیل سے ممتاز بناتی ہے۔ جہاں تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے کی بات ہے اسے بہت پہلے پاس کرا لینا چاہئے تھا، خیر، دیر آید درست آید ۔ بہرحال سیاستدانوں کا ڈائیلاگ سے اجتناب اور ججز کی بےجا مداخلت کے سبب پہلے بحران کا دریچہ کھلا اور آخر قانون سازی کا در وا ہوا۔ اگر اس پر کبھی سیاستدانوں کے درمیان مکالمہ ہو جاتا تو کسی جسٹس کے خلاف ریفرنس کی کہانی ہی جنم نہ لیتی ، نہ سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر اس پر پچھتاتے ، اور نہ آج وزیراعظم شہباز شریف کو سابق حکومت کے ریفرنس کو عدالت پر شب خون مارنا کہہ کر واپس لینا پڑتا۔ مطلب یہاں یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو بھی ایسے آمرانہ رویوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو کسی ادارے یا اصول پر کاری ضرب ثابت ہوں ، ایسے میں پھر ان ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز پر نظر جاتی ہے جو زیرک سیاستدان اور محب وطن پاکستانی ہو ، پارٹی بھلے کوئی بھی ہو۔ ہم تو کہتے ہیں آئین سازی سیاسی مکالمے کی معراج ہے، وہ مکالمہ جس کے تین بنیادی ارکان ہیں: 1۔ تاریخ سے آشنائی، 2۔ دستور سازی کا فہم اور 3۔ معاشرتی اقدار سے آگاہی۔ پولیٹکل سائنس کے مطابق گر کوئی لیڈر مکالمے سے بھاگے تو پھر وہ سیاسی لیڈرشپ کیسی ؟ یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ سیاسی مکالمے میں جیت یا ہار دیکھنے والا قومی مسائل کا حل نہیں دے سکتا !

آج ہر مکتب فکر والا یہاں تک تو پہنچ چکا کہ جسٹس منیر سے جسٹس افتخار محمد چوہدری تک پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت سے زیادتی ہوئی جس میں سب سے زیادہ تذکرہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ہوتا ہے، بعد ازاں جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس ثاقب نثار تک سوال اٹھائے جاتے ہیں، عالمی رینکنگ نے ہمارے عدالتی نظام کو 129 ویں نمبر پر پہنچا دیا۔ اول تو عالمی اداروں کو اعداد و شمار درست نہیں ملے اتنی بھی گئی گزری بات نہیں ہے، دوم اس میں قصور صرف ادارے کا نہیں پارلیمنٹرینز کا بھی ہے کہ انہوں نے نظامِ عدل کی بہتری کو چاہنے والوں کی طرح چاہا ہی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ، سویلین مارشل لا کے کھیل بھی تو کھیلے گئے۔ یہاں بھی ارکانِ اسمبلی کا کردار بنتا تھا، جب الیکٹ ایبلز کے بغیر کسی پارٹی کو دوام نہیں مل سکتا تو کیا ان الیکٹ ایبلز کو بھی ٹکٹ کے حصول کا خدشہ کبھی رہا ؟ نہیں رہا ! پارلیمنٹ میں ہمیشہ ان کی موثر تعداد موجود رہی ہے جو ہواؤں کا رُخ بدلنے کی سکت رکھتے ہیں سو یہ بھی ذرا سوچ لیں کہ کیا کوئی میاں نواز شریف، کوئی آصف علی زرداری یا عمران خان ان سے ناتا توڑ کر انتخابی یا سیاسی رسک لے سکتا ہے؟ باشعور سیاستدان حالات کو کبھی جمہوری، سوگوار یا آمرانہ اقتدارنہیں بننے دیتا اس کا خیال ہر صورت میں پارلیمانی نظام ، پارلیمانی تقدس اور آئینی معیار و آئینی ترامیم کی طرف جائے گا، ایسے میں مکالمہ صرف اسمبلی تک محدود نہیں ہوتا، میڈیا، بیوروکریسی ، ٹیکنوکریسی، اشرافیہ اور عوام الناس میں پائی جانے والی بازگشت بھی معنی خیز ہوتی ہے۔ لیکن عوام یہ ضرور سوچتے ہیں کہ انسانی حقوق کا جو تذکرہ آئین میں موجود ہے وہ ہمیں جن عدالتوں کے ذریعے ملتا ہے کیا یہ سب ان برسوں اور زندگیاں ضائع ہوئے بغیر بھی ممکن ہے؟ یہ سوال پارلیمنٹ کے سامنے بھی ہے عدالتوں کی خدمت میں بھی۔ بہرحال دفعہ 184 (3) کے تناظر میں اپیل کے حق پر بار خوش ہیں سو توقع کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بناؤ ہی کا سبب بنے گا کسی بگاڑ کا نہیں۔ اگرچہ درونِ خانہ عدلیہ میں یا عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کوئی کھینچا تانی یا مباحثہ جنم بھی لیتا ہے تو اسے ارتقائی اور ابتدائی زاویے کی معمول کی کارروائی گردانا جانا چاہئے، کچھ زیادہ نہیں۔

ضروری ہے کہ تبدیلیوں، فیصلوں اور نازکیوں کے اس دور میں سیاستدان ، دانشوران ، وکلاء اور اداروں کے تھنک ٹینک فکری بانجھ پن کو نزدیک نہ پھٹکنے دیں، جمہوریت اور ریاست کو سکھ کا سانس مل گیا تو معیشت اور معاشرت کو پروان چڑھنے میں دیر نہیں لگے گی۔