وزیر اعظم میڈیا بریفنگ2014ء اچھا آغاز؟

January 06, 2014

یکم جنوری2014ء صبح گیارہ بجے وزیر اعظم میاں نواز شریف وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں وفاقی کابینہ کی موجودگی میں نیشنل میڈیا کے دس پندرہ افراد کو بڑے خوشگوار موڈ میں ویلکم کررہے تھے۔وہ سب سینئر صحافیوں سے مصافحہ کررہے تھے اور ان کے آنے کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ اس کا نفرنس ہال میں حالیہ ماہ رمضان میں بھی وزیر اعظم نے اسی طرح قومی سطح پر صحافیوں کے ایک بڑے گروپ کو اکٹھا کرکے ’’انرجی بحران‘‘ کے حل کے حوالے سے بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔ اس وقت ا ن کے مشیر برائے توانائی ڈاکٹر مصدق ملک صحافیوں کو لمبی چوڑی بریفنگ دے رہے تھے۔ اس دفعہ وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ وزیر اعظم کی موجودگی کے باعث پوری وفاقی کابینہ ماسوائے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے وہاں موجود تھی۔ ان میں اکثریت اسکول کے بچوں کی طرح بڑے ڈسپلن اور سہمے ہوئے انداز میں براجمان تھی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ابتدائی کلمات میں میڈیا کے اراکین سے کہا کہ آپ سب کا میری کابینہ انتظار کررہی ہے، ہم لوگ آدھ گھنٹہ پہلےیہاں جمع ہوئے تھے اس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کی دوسو سے زائد یوم کی کارکردگی بیان کرنی شروع کی۔ وزیر اعظم درمیان میں کابینہ اور میڈیا کے اراکین کی دلچسپی کیلئے چھوٹا موٹا اظہار خیال بھی کرتے رہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی ایک سو منٹ سے زیادہ بریفنگ میں حکومت کے قیام سے قبل کے معاشی حالات پھر اپنی حکومت کے چھ ماہ کی کارکردگی اور2014ء کے حوالے سے ’’اکنامک پلان‘‘ اور اقدامات کا ذکر کیا جس میں سے کافی ساری باتیں اس لئے صحیح تھیں کہ واقعی سابق حکومت نے انہیں معاشی شعبہ میں مشکلات کا انبار دیا جو کہ عملاً حکومت کو جہیز یا بیگیج میں ملنے والی مشکلات کہہ سکتے ہیں۔اپنی حکومت کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کئی دعوے بھی کئے اور2014ء کے حوالے سے تو وہ کافی آگے نکل گئے۔ بہرحال وزیر خزانہ نے بڑے مدلل انداز میں بتایا کہ ہم پوری کوشش کررہے ہیںکہ معاشی حالات میں جلد سے جلد بہتری آئے، امریکہ اور یورپ میں بھی تو2007ء میں سب پرائم بحران کے بعد حالات اب جاکر ٹھیک ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ قرضہ ماضی کے قرضوں کا بوجھ اتارنے کے لئے لیا تھا۔اس پر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ اگر بھارت آئی ایم ایف وغیرہ سے جان چھڑا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ انشاء اللہ ہم بھی جلد مستحکم معیشت کی طرف گامزن ہوں گے اور2014ء کا سال اندھیرے سے نکل کر روشنی کا سال ہوگا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو تین بار یہ فقرہ دہرایا کہ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا پھر یہ بھی اعتراف کیا کہ98ء میں فارن اکائونٹس منجمد کرنے کی غلطی کی تھی۔ وزیر خزانہ کی یہ بات سب کو اچھی لگی کہ ماضی قریب کی نگران حکومت نے کئی فیصلوں پر دستخط خود کئے مگر ان پر عملدرآمد ہمیں کرنا پڑا۔ اس گڑ بڑ کی روک تھام کے لئے آئندہ قانون میں ترمیم کرنا پڑیگی کہ آئندہ سے جو بھی نگران حکومت بنے وہ آنے والی حکومت کو کلین چٹ دے کر جائے گی۔ مجموعی طور پر2014ء کا آغاز حکومت کی طرف سے اچھا اقدام ہے کہ میڈیا کو اعتماد میں لے کر سارے حقائق بیان کئے جائیں۔ یہ سلسلہ اگر ہر ماہ تین ماہ تو نہیں ،کم ازکم چھ ماہ کی اقتصادی کارکردگی کے ’’ریویو‘‘ کے پس منظر میں ضرور ہونا چاہئے۔
وزیر خزانہ کو حال ہی میں قا ئم کی جانے والی ’’اقتصادی کونسل‘‘ کے حوالے سے کی جانے والی بات شاید ا چھی نہیں لگی۔ ہم نے ان سے کہا کہ اس کونسل میں کچھ افراد ایسے بھی شامل کئے گئے ہیں جو پچھلے پندرہ بیس سال میں کسی نہ کسی شکل میں فوجی اور سول حکومتوں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو تو ہمارے’’بریف کیس اکانومسٹ‘‘ چلاتے اور تباہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ اس کونسل کے ڈھانچہ کو ری وزٹ کریں، اس پر وزیر خزانہ نے فرمایا اس کونسل میں سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین بھی تو شامل ہیں۔ ہم بھی ڈاکٹر صاحب کے بڑے معترف ہیں مگر وہ بھی تو ان کے حریف سابق صدر مشرف کے دور میں پہلے گورنرSBPاور پھر اعلیٰ انتظامی کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیر خزانہ نے بڑے جذباتی انداز میں کہہ دیا کہ آپ کا بھی اس میں"Interst"ہے۔ اس بریفنگ کے بعد کھانے کے دوران ہمارے ساتھی حامد میر نے مجھ سے گلہ کیا کہ آپ کو’’ڈار‘‘ صاحب کے اس جملہ کا فوری جواب دینا چاہتے تھا۔ بہرحال کھانے کے دوران اپنے فیملی فرینڈ اسحاق ڈار صاحب سے ہم نے کہا کہ ہمارا مفاد ذاتی نہیں قومی مفاد ہے، ہم اسے ہی ترجیح دیتے ہیں، آپ قومی مفاد میں جو بھی اچھا کام کریں گے ہم نہیں سب خوش ہوں گے۔ اس بریفنگ میں میڈیا کی ایک ساتھی خاتون نے کہا کہ معیشت کے معاملات تو تب ٹھیک ہوں گے جب یہاں سیکورٹی کے حالات بہتر ہوں گے، جس وقت وہ یہ بات کررہی تھیں، اسی روز اسلام آباد ہی میں سابق PIO محمد سلیم کے گھر ڈاکو صبح صبح اپنا کام کررہے تھے، اگر اس وقت اسلام آباد میں داخلی سیکورٹی کا یہ حال ہے تو پھر ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کون تحفظ فراہم کریگا۔ یہ کام کس کا ہے، وزیر داخلہ صاحب تو اسلام آباد پولیس کو شاباش دیتے رہتے ہیں پھر بھی کئی دفعہ کئی ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں۔2014ء حکومت کے لئے جہاں انرجی بحران دور کرنے کی طرف پیش قدمی کا سال ہونا چاہئے وہیں داخلی طور پر سیکورٹی کے حالات بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کرنے پڑیں گے تاکہ خوشحالی کے سفر کے آغاز میں حائل رکاوٹیں اور عالمی سازشیں ناکام بنائی جاسکیں۔