مقدمات میں غیر ضروری التوا!

September 27, 2023

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے پر کہ مقدمات میں اب بلاوجہ التوا نہیں ملے گا ہزاروں سائلین نے سکھ کا سانس لیا ہوگا جن کے مقدمات سالہا سال سے تصفیہ طلب پڑے رہتے ہیں اور فیصلے تو کجا ان کی سماعت کی نوبت بھی کم ہی آتی ہے۔ کوئٹہ میں سریاب رنگ روڈ کی اراضی کی حوالے کے معاہدے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران درخواست گذار کے وکیل نے التوا کی استدعا کی کہ عدالت کے سامنے حقائق پیش کرنے کے لئے اسے ایک موقع اور دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیں کہ اب مقدمات میں بلاوجہ التوا ملے گا۔ عدالت عظمیٰ میں بہت زیادہ کیس التوا میں پڑے ہیں۔ آئندہ کسی بھی کیس میں ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جاری ہوں گے اور اگلی سماعت پر دلائل سن کر فیصلہ کردیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ پیغام سب کے لئے ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرکے فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا موکل 35 سال بعد عدالت میں آگیا ہے کہ رنگ روڈ کی اراضی کی منتقلی کے معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ درخواست گذار کے دوست حکومت یا انتظامی عہدوں پر آجائیں تو دعویٰ دائر کردیا جائے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اس کے موکل کے ساتھ رنگ روڈ سے متصل اراضی کی منتقلی کا معاہدہ ہوا تھا جو اب بھی خالی ہے درخواست گذار چاہتا ہے کہ اس کی باقی اراضی بھی کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی لے لے لیکن وزیراعلیٰ نے زمین کے تبادلے پر پابندی عائد کررکھی ہے اس لئے معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیئے کہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانونی طور پر قائم شدہ ادارہ ہے جس کے فیصلوں میں وزیراعلیٰ کا اختیار نہیں بنتا۔ وہ پابندی کیسے لگا سکتا ہے ؟ اس طرح تو ایسے بہت سے کھاتے کھل جائیں گے۔ چیف جسٹس نے درخواست گذار کی درخواست خارج کردی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت بہت بڑی تعداد میں کیس زیر التوا ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے سیاسی نوعیت کی درخواستیں عدالت میں زیادہ آرہی ہیں اور اپنی نوعیت کے اعتبار سےفوری سماعت کے لئے انہیں منظور کرلیا جاتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں عام مقدمات متاثر ہوتے ہیں اور مہینوں نہیں بلکہ سالوں تک ان کی سماعت نہیں ہوتی۔ ماتحت عدالتوںمیں صورتحال اور بھی خراب ہے۔ تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے بیشتر کی سماعت کی طویل عرصہ تک باری ہی نہیں آتی۔ خاص طور پر دیوانی مقدمات تو کئی کئی سال تک چلتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں عدالت عظمیٰ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران ایک درخواست گزار سے پوچھا گیا کہ اس کا وکیل کہاں ہے تو سائل نے عدالت کو بتایا کہ وکیلوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ ان کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے اس نے مخالفین میں سے بعض کو معاف کردیا ہے اور بعض سے صلح کرلی ہے۔ اب وہ اپنا مقدمہ واپس لینا چاہتا ہےعدالت نے درخواست واپس لینے کی بنا پر نمٹا دی۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض معمولی کیسز بھی ماتحت عدالتی اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے سالوں چلتے ہیں اور بالآخر سائلین ، خواہ کتنے ہی حق پر ہوں، مجبور ہوکر مقدمات واپس لے لیتے ہیں۔ یہ صریحاً انصاف کا قتل ہے لیکن ناقص نظام کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس نے مقدمات کا بلاوجہ التوا روک کر مستحسن قدم اٹھایا ہے جو انصاف کے تمام تقاضوںکو پورا کرتا ہے ۔مقدمات تو پہلے مقامی سطح پر ہی طے ہوجانے چاہئیں، ایسا نہ ہوسکے تو عدالتوں میں انہیں بلاجواز طول نہیں دینا چاہئے۔