سنجے لیلا بھنسالی اور نو مئی

May 09, 2024

برطانیہ کے ایک فلم اسکول میں کیٹ اور ہم اکٹھے پڑھتے تھے، ایک دفعہ کیٹ نے پوچھا کہ میں برِصغیر کے سینما کو سمجھنا چاہتی ہوں، اس کے لیے بس کوئی ایک آدھ فلم ایسی تجویز کر دو کہ بات سمجھ آ جائے۔ یہ ایک مشکل کام تھا، ایک پورے سینما کی سینسبلٹی سمجھنے کے لیے کم از کم درجن بھر فلمیں تو ہونا ہی چاہئیں۔ بہرحال، کچھ غور کے بعد ایک فلم منتخب کی گئی، مقصد یہ تھا کہ ایک ’باہر‘ والی کو معلوم ہو جائے کہ اس خطے کی فلموں میں ہیرو ہیروئن کیا مخلوق ہوتے ہیں،، ولن اور کامیڈین کسے کہتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ ہما رے سینما کے آرکی ٹائپ عاشق و معشوق اور سماج کیسے ہوتے ہیں، پھرہماری فلم میں رقص و موسیقی کا کردار بھی سمجھ میں آ جائے۔ اور ان سب سے بڑھ کر فلم دیکھتے ہوئے دل لگا رہے۔ جو فلم تجویز کی گئی اُس کا نام تھا ’’دیوداس‘‘، اور فلم کے ہدایت کار تھے سنجے لیلا بھنسالی۔

یہ تمہید اس لیے باندھی گئی کہ سنجے نے نیٹ فلکس کے لیے ایک سیریز بنائی ہے جس کا نام ہے ’’ہیرا منڈی‘‘۔پاکستان میں غالباً آج تک کسی ہندوستانی ڈراما سیریز پر اتنی تنقید نہ ہوئی ہو گی جتنی ’’ہیرا منڈی‘‘ کے حصے میں آئی ہے۔ اس تنقید کے بنیادی نکات یہ ہیں کہ تاریخی طور پر اس میں سُقم ہی سُقم ہیں، ہیرا منڈی میں نہ تو ایسی عالی شان حویلیاں تھیں اور نہ ایسی لکھنوی زبان بولی جاتی تھی۔ کچھ زمانی غلطیاں بھی زیرِ تنقید ہیں، جیسے فلم میں ایک اخبار جسے زوم کیا جائے تو کرونا وائرس کے بارے خبر نظر آتی ہے، اور ایک سین میں زوم کیا جائے تو کتابوں کی الماری میں پاکستانی مصنفہ عمیرہ احمد کا 2004 کا ناول’پیرِ کامل‘ دکھائی دیتا ہے، جب کہ ڈراما سیریز 1920-40 کاعہد دکھا رہی ہے۔

ہمارا آبائی گھر شیش محل روڈ پر واقع تھا، داتا دربار کے سائے میں، جہاں سے ہیرا منڈی زیادہ دور نہیں تھی۔ ہیرا منڈی ہمارا چکر صرف ایک بہانے ہی لگتا تھا، ہم وہاں کبھی کبھار پھجے یا فضلِ حق کے سری پائے کھانے جایا کرتے تھے، اُس زمانے میں کھانے کی دکانوں کی برا نچیں نہیں ہوا کرتی تھیں، یہ بہت بعد کی بات ہے جب پھجے اور فضل حق اور طوائفوں نے اپنی برانچیں شہر میں کھولنا شروع کیں۔ ہم وہاں کھانا کھانے بڑی احتیاط سے جاتے تھے کہ کوئی واقف نہ دیکھ لے، سیدھے جاتے اور سیدھے واپس۔بہرحال، ہم نے ان بنی ٹھنی، پان چباتی طوائفوں کو اپنے اپنے ’دفتر‘ (کوٹھے) کے باہر ایک بڑے سے بلب تلے، تھڑوں پر جلوہ آرا دیکھ رکھا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کوٹھوں والی مرکزی گلی سے شام کے وقت موٹر سائیکل بھی رینگ رینگ کر گزرتی تھی، کجا کہ سنجے لیلا بھنسالی کی بگھیاں اور موٹر کاریں ۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ فلموں کے genreہوتے ہیں، اور ’’ہیرا منڈی‘‘ کا یونرا ’تاریخ‘ نہیں ہے۔فلم کا ایک یونرا ’فینٹسی‘ بھی ہوتا ہے، جو خواب اور خواہش کی بنیاد پر کھڑا کیا جاتا ہے، اور سنجے کی شہرت بھی ایک ایسے ہی ہدایت کار کی ہے، ان کی اکثر فلموں (باجی رائو مستانی، پدما وتی، رام لیلا، وغیرہ) کی ریلیز پر ہندوستان میں ہنگامے ہو جاتے ہیں کہ’ آپ نے تاریخ کو مسخ کیا ہے‘۔ اس دفعہ سنجے نے علاقہ اور موضوع ہی ایسا چنا جس سے ان کے خلاف بھارت میں کوئی محاذ نہ کھڑا کیا جا سکے، انہیں کیا خبر تھی کہ اس دفعہ انہیں پاکستانیوں بالخصوص لاہوریوں کے غیظ وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اس ضمن میں اپنے ہم وطنوں کے لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ’ہیرا منڈی‘ کو آپ اسی نظر سے دیکھیے جس سے آپ ’مطالعہ پاکستان‘ کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ جہاں تک زمانی غلطیوں کا تعلق ہے تو وہ دنیا کی عظیم فلموں میں بھی پائی جاتی ہیں، ’گاڈ فادر‘ میں ریڈیو پر ایک بیس بال میچ کی کمنٹری شامل ہے جو دکھائے گئے عہد کے کہیں بعد کا میچ ہے اور ’بن ہر ‘ میں جہاں بگھیاں بھاگتی ہیںوہاں زوم کر کے جیپ کے ٹائروں کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔در اصل، ہر فن کا اپنا جمالیاتی نظام ہوتا ہے، اور سب سے پہلے فن پارے کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ اور کمرشل فلم اور ڈرامے کی تعریف و تنقید کا تو اور بھی سیدھا پیمانہ ہے یعنی ’’باکس آفس‘‘۔ کروڑوں روپے خرچ کر کےکمرشل فلمیں اور ڈرامے نقادوں کے لیے نہیں بنتے، عوام کے لیے بنتے ہیں۔ اور 200 کروڑ سے بننے والی ’ہیرا منڈی‘ اپنی ریلیز سے اب تک نیٹ فلکس کی نمبر ون سیریز ہے۔

اب ایک غیر اہم بات، یعنی سیریز کے بارے ہماری ذاتی رائے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ساری دنیا میں ’’لاہور‘‘ کا چرچا ہو رہا ہے، جو سنجے کی فلم میں انتہائی پرشکوہ شہر نظر آ رہا ہے، اربوں روپے خرچ کر بھی لاہور کی ایسی مارکیٹنگ نہیں کی جا سکتی تھی۔ بلا شبہ، سنجے پروڈکشن ڈیزائن کے لحاظ سے اس خطے کا سب سے بڑا ڈائریکٹر ہے، یعنی سیٹ، کاسٹیوم، جیولری وغیرہ، ان کا آہنگ بلند اور انداز پُرمبالغہ ہے، ان کی تخلیقات کر و فر اور شان و شوکت کا نمونہ ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ خود کو دہرا نے لگے ہیں، اورہیرا منڈی ان کے بہترین کام میں شامل نہیں ہو پائے گی۔ جیسے پاکستان میں کسی اسکرپٹ رائٹر کو فلم کا تین گھنٹے کا دورانیہ سمجھ نہیں آتا اسی طرح سنجے کو بھی اپنی آٹھ قسطوں کی پہلی پہلی سیریز کے اسکرپٹ پر قابو نہیں رہا۔اور آخری قسط تو مضحکہ خیزی کی سرحد تک جا پہنچی جس میں ہیرا منڈی کی طوائفیں بھگت سنگھ کی طرح ’’انقلاب‘‘ کی شمع پر جانیں نچھاور کرنے لگتی ہیں۔

انقلاب سے خیال آیا آج نو مئی ہے، ایک ناکام انقلاب کی سال گرہ۔ اس موقعے پر ہم نو مئی کی بغاوت کچلنے والوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، اور باغیوں کو بھی مبارک.... جو آج کل زور و شور سے اگلے انقلاب کی تیاری کر رہے ہیں۔