مستی اور بدمستی

June 24, 2024

مستی اور بدمستی میں زیادہ فرق نہیں۔ اپنی دھن میں مست انسان کچھ زیادہ مست ہو جائے تو اسے بدمست قرار دے دیا جاتا ہے۔ مستی اور بدمستی کا ذکر صرف شاعری میں نہیںبلکہ سیاست میں بھی ملتا ہے۔ ریاض خیر آبادی نے کیا خواب کہا تھا۔

پلا دی تھی ساقی نے کیسی مجھے

کہ محشر میں بھی مجھ کو مستی رہی

تری زلف پر لوگ مرتے رہے

یہ ناگن یونہی سب کو ڈستی رہی

سیاست میں مستی بڑھ جائے تو کبھی کبھی سیاستدان کی زبان ناگن بن کر مخالفین کو ڈسنے کی کوشش کرتی ہے۔ 22جون کوقومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن ثنا اللہ خان مستی خیل کی زبان سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے خلاف ایک انتہائی زہریلا لفظ نکل گیا جس کا یہاں ذکر مناسب نہیں۔ اس لفظ کی ادائیگی نے قومی اسمبلی میں ہنگامہ برپا کردیا۔ ثنا اللہ مستی خیل ایک پرانے پارلیمینٹرین ہیں ان کی زبان سے ایسے لفظ کا ادا ہونا ان کی اپنی پارٹی کی خواتین کیلئے بھی خفت کا باعث بنا اور کچھ ہی دیر میں مستی خیل صاحب نے خواجہ صاحب سے معذرت بھی کرلی لیکن پھر مسلم لیگ ن کی خواتین ارکان نے ہنگامہ کردیا اور مستی خیل کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ آئندہ اس قسم کے الفاظ کا دوبارہ استعمال نہ ہو۔ ویسے تو خواجہ صاحب بھی ماضی میں تحریک انصاف کی ایک خاتون رہنما کے بارے میں ایسا لفظ استعمال کر چکے ہیں جو ایک قابل اعتراض استعارہ قرار دیا گیا اور اس لفظ کی بھی ہر طرف سے مذمت کی گئی تھی۔ اب مستی خیل نے ان کے بارے میں ایک اخلاق سے گرا ہوا لفظ استعمال کیا تو مجھے خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر یاد آیا۔

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

مسلم لیگ ن کے مطالبے پر سپیکر قومی اسمبلی نے ثنا اللہ مستی خیل کی رکنیت رواں سیشن کیلئے معطل کردی۔ تحریک انصاف کو اعتراض ہے کہ جب مستی خیل صاحب نے خواجہ محمد آصف سے معافی مانگ لی تو ان کی رکنیت معطل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ قومی اسمبلی میں گالی گلوچ کوئی نئی بات نہیں۔ اس قسم کے واقعات عمران خان کے دور حکومت میں بھی پیش آتے تھے اورسپیکر اسد قیصر نے کئی ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی بھی لگائی تھی۔ منتخب ایوان میں گالی گلوچ کوئی بھی کرے یہ قابل مذمت ہے لیکن مسلم لیگ ن والوں سے پوچھنا تھا کہ گالی گلوچ قومی اسمبلی میں قابل مذمت ہے تو سوشل میڈیا پر کیوں نہیں؟ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور کچھ دیگر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کیلئے سائبر جتھے بنا رکھے ہیں۔عمران خان کے دور حکومت میں یہ سائبر جتھے سرکاری سرپرستی میں سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف گالی گلوچ کرتے تھے۔ آج شہباز شریف کے دور میںبھی مسلم لیگ ن کے سائبر جتھے سرکاری سرپرستی میں ناصرف تحریک انصاف بلکہ پیپلز پارٹی کے علاوہ جے یو آئی کے خلاف بھی گالی گلوچ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے سائبر جتھوں کے کچھ سرخیل ان صحافیوں کی مائوں اور بہنوں پر بھی گندگی اچھالتے ہیں جنہیں یہی جماعت عمران خان کے دور میں آزادی صحافت کے مجاہد قرار دیا کرتی تھی۔ مسلم لیگ ن کے اکثر حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اپنے اکائونٹس کو نواز شریف اور مریم نواز کی تصویروں سے سجایا جاتا ہے اور جن اکائونٹس سے انتہائی گندی گالی گلوچ کی جاتی ہے ان میں سے اکثر اکائونٹس کو مریم نواز فالو کرتی ہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف صرف قومی اسمبلی میں نہیںبلکہ سوشل میڈیا پربھی ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ بند کریں۔ ان جماعتوں کی دیکھا دیکھی بہت سے ایسے لوگ بھی اس کاروبار میں شامل ہوگئے ہیں جن کا اصل مقصد ان جماعتوں کو لڑا کرپیسے کمانا ہے۔ آپ صرف پچھلے دس سال کی تاریخ دیکھ لیں جوبھی حکومت میں آتا ہے وہ الیکٹرانک میڈیا اورسوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلم لیگ ن 2016ءمیں پیکا ایکٹ لاتی ہے تو تحریک انصاف 2022ءمیں پیکا آرڈیننس لے آتی ہے۔ جوبھی حکومت میں آتا ہے آزادی صحافت کا دشمن بن جاتا ہے اور جو اپوزیشن میں ہوتا ہے آزادی صحافت کا علمبردار بن جاتا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں سیاست سیاست نہیں رہی بلکہ خاندانی دشمنی بن گئی ہے۔ بہت سے صحافی بھی صحافی نہ رہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے خدمت گار بن گئے۔ سیاست اور صحافت کے اس زوال کی اصل وجہ جمہوری اداروں کی کمزوری ہے۔ جو بھی حکومت میں آتا ہے آزادی صحافت کا دشمن کیوں بن جاتا ہے؟ہمارے سیاستدان جن طاقتوں کے کندھوں پرسوار ہو کر حکومت حاصل کرتے ہیں ان طاقتوں کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں۔ یہ فرمائشی پروگرام انہیں عوام میں غیر مقبول بنا دیتا ہے تو وہ مزید مجبور ہو کر غیر سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ آزادی صحافت دراصل پارلیمنٹ کی مضبوطی سے مشروط ہے۔ پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو صحافت کی آزادی کو تحفظ ملے گا۔ اگر پارلیمنٹ صحافت کی آزادی سلب کرنے کیلئے قوانین بنائے گی تو صحافیوں کو انصاف کیلئے عدلیہ کےپاس جاناپڑے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری تاریخ میں عدلیہ کا کردار زیادہ قابل فخر نہیں رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کل کچھ ججوں کو حکمران مسلم لیگ ن کےسائبر جتھے تحریک انصاف کا حامی قرار دیتے ہیں لیکن جب تحریک انصاف حکومت میں تھی تو وہ ان ججوں کو مسلم لیگ ن کا ٹائوٹ قرار دیتی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں کچھ ایسے لوگوں کو صدارتی ایوارڈ دلوائے گئے جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کئی معزز جج صاحبان کے خلاف سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کی اور ان پر جھوٹے الزامات لگائے ۔ آپ ثنا اللہ مستی خیل کے انداز گفتگو اور انداز سیاست پر تنقید کرسکتے ہیں۔ موصوف 2002ءمیں مسلم لیگ ق کے ایم این اے تھے۔ 2008ءمیں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے تھے اور 2024ءمیں تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی بدمست قیادت کےبارے میں کیا خیال ہے جو وقت بدلنے پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی اور رنگ بدلنے کی اس عادت نے جمہوری اداروں کو کمزور کر دیا ہے۔ بقول خواجہ حیدر علی آتش:

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے