نیا آئی ایم ایف پروگرام

July 02, 2024

مالی اور انتظامی بد نظمی کی شکار ملکی معیشت کو پھر سے استحکام کی راہ پر ڈالنے کیلئے حکومت اگرچہ اپنی دانست میں سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن نئے قومی بجٹ میں محصولات کی آمدنی بڑھانے کیلئے اس نے جو سخت اقدامات اٹھائے ہیں اس کے نتیجے میں زندگی کا تقریباً ہر طبقہ کسی نہ کسی طور متاثر ہوا ہے اور اپنے اپنے انداز میں سراپا احتجاج ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے اتوار کو پریس کانفرنس میں اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور بجٹ کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت کی مجموعی صورتحال بہتر ہوئی ہے، مالی اور کرنٹ خسارے میں کمی آئی اور کرنسی مستحکم ہوئی ہے۔ مہنگائی کی شرح 38فیصد سے کم ہوکر 12فیصد پر آگئی ہے۔ اس سے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ جس کی بدولت معاشی استحکام کو تسلسل کی جانب لے جانے میں مدد مل رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بلا شبہ نئے ٹیکسوں کی وجہ سے لوگ دبائو محسوس کر رہے ہیں، بالخصوص تنخوا ہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن جیسے ہی مالی گنجائش پیدا ہوئی، انھیں ضرور ریلیف دیا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی اخراجات کم کئے جارہے ہیں۔ وزرا نے تنخواہیں لینا ترک کردی ہیں اور یوٹیلٹی بل بھی خود ہی ادا کر رہے ہیں۔ بجٹ جو کل سے نافذ ہوچکا ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اسی ماہ عالمی ادارے سے 6سے 8ارب ڈالر کے طویل المدت قرضے کا معاہدہ ہو جائے گا۔ یہ آخری پروگرام ہوگا جس کے بعد عالمی ادارے سے مزیدقرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بجٹ اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 42ہزار رجسٹرڈ خوردہ فروشوں پر ٹیکس یکم جولائی سے نافذ ہوگیا ہے۔ حکومت کرپشن، لیکیج اور ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کر رہی ہے، اس طرح انسانی عمل دخل کم ہونے سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر حکام اور ٹیکس دہندگان دونوں ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ میکرو اکنامک استحکام اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہےجس کیلئے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے، اسکے بغیر معیشت بحال نہیں ہوسکتی۔ اس وقت 6ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے جس پر قابو پانے کیلئے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جارہی ہیں اور بجلی کمپنیوں کی آئوٹ سورسنگ اور نجکاری پر کام ہو رہا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع کی منتقلی میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں۔ 39سو ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ سول ملازمین پر نیا پنشن سسٹم یکم جولائی سے لاگو ہو جائے گا۔ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر بھی غور ہورہا ہے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں کٹوتی کرکے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نظام رائج کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ میں کئے گئے اقدامات کے دفاع میں حکومتی نقطہ نظر کی جو وضاحت کی ہے وہ کافی حوصلہ افزا ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عام آدمی اس سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں اور ممالک کے اربوں ڈالر ز کے قرضے ادا کرنے کیلئے حکومت ٹیکسوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ یکم جولائی سے پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام کیلئے سوہان روح بن گیا ہے تعمیراتی سیکٹر اور بعض دوسرے شعبوں پر ٹیکس بڑھانے سے انکی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت جہاں آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کر رہی ہے وہاں غریب اور پسماندہ طبقوں کے مفادات کے تحفظ کو بھی پیش نظر رکھے گی۔