ایس سی او اجلاس

July 03, 2024

میں اپنے بیٹے موسیٰ کے ہمراہ جو بارہ برس کا ہے بیجنگ کی جانب محو پرواز ہوں ۔ اس موسم میں بیجنگ کا درجہ حرارت لاہور سے کم ہوتا ہے مگر شنيد ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی نسبت سے بیجنگ کا درجہ حرارت بلند ہے ۔ اجلاس کا انعقاد تو آستانہ قازقستان میں ہو رہا ہے مگر چینیوں کی ساری توجہ اس وقت اس پر ہی مرکوز ہے ۔ مگر اس سے قبل میں اسلام آباد میں امریکی سفیر کی جانب سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں موجود تھا اور وہاں پر موضوع بحث امریکہ کی جانب سے حال ہی میں منظور کی گئی قرار داد تھی ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا بڑا اقدام ہونے والا تھا اور پاکستان کے سفارت خانے کی اس حوالے سے کوئی کارکردگی نہیں تھی۔امریکہ میں سفیر پاکستان بہت تجربہ کار ہے اور گزشتہ چار برس سے اس عہدے پر بھی فائز ہے جبکہ اسلام آبادمیں بھی ایک سابق سفیر مسلم لیگ ن کی کابینہ کا تیسری بار رکن ہے ۔ ان افراد کو تو پتہ ہونا چاہئےکہ امریکہ میں کونسے کانگریس مین یا دیگر افراد ہمارے دوست ہیں اور کون مخاصمت کے جذبات سے آلودہ ہیں ۔ خبر یہ بھی ہے کہ ایک دوست ملک نے پاکستان کو آگاہ کر دیا تھا کہ یہ واقعہ پیش آنے والا ہےمگر اس سب کے باوجود اس کو روکا نہیں جاسکا، بہت حیرت انگیز امر ہے ۔ اس کو بس ایک قرار داد تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے ۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب کی آمد آمد ہے اور ابھی ٹی وی مباحثہ میں ٹرمپ صدر بائیڈن پر سبقت حاصل کر گئے ہیں ۔ اگر امریکہ میں پاکستان کے بارے میں اس قرار داد جیسا ہی ماحول بنا رہا اور ٹرمپ پھر بر سر اقتدار آ گیا تو اس کے پاکستان کی سیاسی و اقتصادی حالت پر شدید اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔بہرحال ان ابتدائی جملوں کی تفصیل تو پھر کبھی ۔ گزشتہ کالم میں ایس سی او پر گفتگو کرتے ہوئے انڈیا کا اجمالی ذکر کیا تو بہت سارے احباب نے فرمائش کی کہ اس اجمال کی تفصیل ہونی چاہئے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ایس سی او کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ انڈیا کے پاکستان سے کشیدہ اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین سے بھی تلخ تعلقات ہیں اور جب تک ان دونوں ممالک سے انڈیا کے معمول کے تعلقات قائم نہیں ہوتے اس وقت تک ایس سی او کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑےگا ۔ پاکستان سے تو جو معاملات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں کہ اب ہمیں انڈیا کی جانب سے اس کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں گھس کر ہمارے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ چین اور انڈیا کے تعلقات گلوان پر ہوئے فوجی تصادم کے بعد سے اب تک معمول پر نہیں آ سکےاور ایس سی او اجلاس میں اسی وجہ سے نریندر مودی خود شرکت بھی نہیں کر رہے ۔بلکہ انڈیا نے ایس سی او اجلاس سے قبل ایسا ماحول تشکیل دے دیا ہے کہ جس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہ چین کیلئے ڈنکے کی چوٹ پر پیغام ہے ۔ ہوا یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے ریزولو تبت ایکٹ منظور کیا ہے ۔ اس ایکٹ کی رو سے چین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دلائی لامہ سمیت تبت کی قیادت سے مذاکرات کرے ، چین کے تبت پر دعوے کو مسترد کیا گیا ہے اور اس دعوے کے خلاف کام کرنے کیلئے فنڈز استعمال کرنے کا کہا گیا ہے ۔ یہ امریکہ کی جانب سے تبت کے حوالے سے حالیہ تاریخ میں تیسرا اقدام ہے ۔ اس سے قبل دو ہزار دو میں تبتن پالیسی ایکٹ اور دو ہزار بیس میںتبتن پالیسی اینڈ سپورٹ ایکٹ پاس کیا گیا تھا ۔ چین میں اس پر شدید تشویش کے دوران ہی گزشتہ ماہ امریکی سابق سپیکر نینسی پلوسی ایک پارلیمانی وفد لے کر انڈیا پہنچ گئی ۔ اس وفد میں دیگر اراکین کانگریس کے ساتھ ساتھ ہاؤس آف فارن افیئرز کمیٹی کے چیئر پرسن مائیکل میک کاؤل بھی شامل تھے ۔ چین کے شدید تحفظات کے باوجود انکی دلائی لامہ اور دیگر جلا وطن تبتی افراد سے دھرم شالہ میں ملاقات کرائی گئی اور چین کو انڈیا کی طرف سے واضح پیغام پہنچا دیا گیا ۔ اسی دوران انڈیا نے چینی افراد کو ویزے جاری کرنے پر بھی کچھ مزید قدغنیںعائد کر دیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہنوز حل طلب ہے ۔ اس لئے ایس سی او کو سب سے بڑا چيلنج ہی انڈیا کے رویے سے ہے ۔ اگر انڈیا ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرلے تو ایس سی او سے مزید مفادات کا حصول عین ممکن ہے ۔ اس تمام کے باوجود ایس سی او کے موجودہ اجلاس میں کاؤنٹر ٹیررازم اسٹرکچر اور یوریشیا کی تجارتی گزرگاہوں کے قیام اور انکو مزید بہتر کرنے پر توجہ مرکوز ہے اور اس سے لامحالہ سی پیک ایک جڑا ہوا اہم عنصر ہے ۔ چاہ بہار بندر گاہ اور 7200 کلو میٹر پر مشتمل انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور جس میں بھارت، ایران، روس، آذربائیجان، آرمینیا، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکی، یوکرین، بیلاروس، عمان اور شام شامل ہیں، اہم موضوعات ہیں حالانکہ اس میں بھی روس یوکرائن جنگ ایک درد سر ہے۔لیکن اس سب کے باوجود توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اس اجلاس سے ایس سی او مزید مضبوط ہو گا۔