عوام کے خلاف حکومتی مزاحمت

July 02, 2024

انسانی معاشرے کی تشکیل عطائے رب کریم اپنی اعلیٰ و جملہ صلاحیتوں سے اولاد آدم نے ازخود کی۔ اس طرح انسانی معاشروں نے اپنے نظم کے لئے، فلاح و بہبود ترقی و ارتقاء کو جاری و ساری رکھنے کے لئے قبیلوں، حکومتوں، مملکت و سلطنت اور ان کے تحفظ و استحکام کے لئے آئین و قانون و اختیار حساب و احتساب و انصاف و عدل سے انسانی تہذیب کے اس ارتقائی عمل کی تیز تر روانی رکھتے علوم و فنون اور حقوق و فرائض کے ستونوں پر استوار کیا۔ عقل و ابلاغ اور مسلسل انہماک و حرکت سے برکت پائی۔ یوں انسان نے ارض پر چھپی اور ہر جانب بکھری و پوشیدہ نعمت ہائے خداوندی سے خود کو مہذب ومحترم بنایا۔ بنیادی اور ہر زمانے و وقت کی برآمد ہوتی ضرورتوں کو بخوبی و احسن پورا ہی نہیں کیا، کمال کردیا اس بیش بہا لیکن تنہاو ویران کرہ ارض کو سنوارنے و نکھارنے میں الگ ہے کہ انسانی خواہشات، ضرورتوں، حاجتوں اور آسائشات و تعیشات کی کوئی حد نہیں لیکن مقابل ایجادات و اختراعات و مراعات کی کونسی ہے؟وہ بھی نہیں۔ یہ سب کچھ حضرت انسان کے اتنے بڑے کارہائے نمایاں ہیں کہ خود انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس کا خالق و معبود کتنا عظیم تر اور کمالی و جمالی ہے؟ حضرت انسان نے درس الٰہی کے ساتھ ساتھ اتنا راز تو پا لیا کہ اس کارب لامحدود و لامتناہی ہے، جس کی عظمت و عنایات کی کوئی حد ہے نہ عمر۔ وہ (آدم سے بنا انسان) اتنا بھی مان و جان کیا کہ وہ خود حدود و قیود کا ہی باسی و اسیر ہے، تبھی تو اتنا مہذب و محترم بنا۔ اس ارتقاء سے تو ممکن ہوا کہ وہ ثابت کر دے اور کردیا کہ وہ نائب اللہ ہےاور زمین پر اللہ کا خلیفہ، لیکن آج انسانی ترقی کی معراج بلیک ہول کی دہلیز پر تاک جھانک کرتی مزید راز ہائے کائنات کی کھدائی میں منہمک ہے تو اس کے متوازی و مقابل انسانی معاشرت کو گمراہی کے آپشن (شیطانیت) نے آن گھیرا ہے۔بجنگ آمد ایک طرف عوام کی حصول آزادی حقوق کی بازیابی، قوت اخوت عوام کی صلاحیت و سکت کا گراف بلند ہو رہا ہے تو دوسری جانب بیمار ریاستی ڈھانچہ، ترقی یافتہ و پذیر دونوں کے خواص، عوام کی بڑھتی کپیسٹی کے خلاف یک جا ہو کر مزاحمت پر اتر آئے ہیں۔ منتخب ایوان، سیاسی و انتخابی عمل، زر و معاش کے ذرائع پر ان کا اجارہ حتیٰ کہ عدالتی نظام عوام کی طر ف سے چیلنج کیا ہوا ،یہ ریاستوں کی جنگوں اور خانہ جنگیوں تک سے تغیر کی مزاحمت پر تل گئے ہیں۔ دنیا بھر میں قومی ابلاغ کے دھاروں کو بری طرح ڈسٹرب کرکے ان دیکھے حربوں ہتھکنڈوں کا استعمال بڑھ رہا ہے تو HAVES کے مقابل HAVE NOTS نے بے نقابی، مزاحمت اور کامیابیوں کی اپنی بڑھتی ابلاغی صلاحیتوں اور حق ووٹ سے عالمی مافیا راج کو عالمی اور بعض کیسز میں ریاستی سطح پر مضطرب کر دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیلی کی عالمی ور مملکتی قوتوں میں اتحاد و قوت کے کمزور طریق ہائے کار کو کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے زیادہ سے زیادہ کار آمد اور قابل قبول بنایا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی قیام پاکستان کا بڑا اثاثہ ہمارا مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ کو، علمی و تحقیقی معاونت کی فراہمی کا نظام و اہتمام مستقل بنیاد پر اولیگارکی (مافیا راج)کے مقابل قائم کرکے نئے کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کے تابع کرکے اسے عوامی قوت کی ادارہ سازی میں ڈھال دیا جائے۔ ثمر آور تحقیق کامیاب تجربات اور پریکٹس اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ابلاغی محاذ پر عوامی ابلاغی صلاحیت عالمی و ملکی نظام ہائے بد کو انسانیت کے کم سے کم نقصان کے ساتھ زیر کرسکتی ہے۔ خبردار!کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا بکھرا گنجلک، علمی معاونت سے محروم یا نیم حکیمانہ اور غیر ذمے دارانہ استعمال بعض موجود پہلوئوں کے باوجود دولت و اختیار کی نئی طاقت سے لیس منفی سیاسی طاقتوں اور ان کے حواریوں کو بگاڑ بڑھانے اور اس پر ہی قائم رہنے کی مہلک سکت سے لاد دے گا۔

اس حوالے بوریوں کے منہ تو کھلنے لگے ہیں یہاں یہ یاد دلاناضروری ہے کہ تشکیل پاکستان کی نتیجہ خیز تحریک کے واضح نظریے راست قیادت، محدود لیکن استقلال کے حامل پلیٹ فارم کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کو حاصل غیراعلانیہ مخصوص ملکی اور جماعتی معاون ابلاغی نظام، (بشکل نظریہ پاکستان کا پروموٹر میڈیا) تحریک قیام پاکستان کا بنیادی اور موثر ترین اثاثہ تھا۔ اس کی لیگسی تھی کہ نومولود پاکستان کے پہلے ہی عشرے اور آنے والے پرآشوب عشروں میں آئین و قانون سے بیزار حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے مقابل عوامی سیاسی تحاریکوں کی جزوی آزاد و غیر جانبدار میڈیا سے جلا ملتی رہی۔

یہ ہی وجہ تھی کہ آمرانہ ادوار میں بھی محدود عوامی سیاسی ابلاغی سرگرمیوں سے نتیجہ خیز مزاحمت ہوتی رہی، لیکن ابلاغی علمی اور حقیقی پیشہ ورانہ انداز کی کمی سے جزوی مطلوب میڈیا پاکستان میں بھی اپنی مطلوب افرادی اور اجتماعی کیپسٹی بلڈنگ تو نہیں کرسکا۔ آج حالات مختلف ہیں۔ پوٹینشل کی حد تک اولیگارکی کے قابو آیا مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا، دونوں کو معنی خیز انداز میں عوام (سوسائٹی) کے ساتھ اور عوام کو اس کے ساتھ جڑنا ہوگا توسیاسی ماحول میں عوامی دبائو، اثر بڑھتا مطلوب قومی ملکی ابلاغی معاون نظام وجود میں آئے گا۔یہ نئی عوامی طاقت اور نظام ہی اسٹیٹس کو، دیرینہ طاقتوں، روایتی سیاسی سماجی ڈھانچے کے تسلط سے ریاستی اداروں کو حکومتی گرفت دبائو اور حربوں ہتھکنڈوں سے نکال اور محفوظ کرسکتا ہے۔ حکومت ملکی سیاسی ڈائیلاگ کے لئے مطلوب ماحول بنانے کے لئے تیار نہیں تو سول سوسائٹی کو ملکی ابلاغ عامہ کے دھاروں کو پبلک افیئرز کے دائرے میں لانے کے لئے تواتر سے باہمی ڈائیلاگ کا اہتمام کرنا پڑےگا۔ کون کرے گا؟ سول سوسائٹی کی سرگرم تنظیمیں اور پوٹینشل شہریوں کو اس جانب سوچنا اور عمل کی طرف آنا ہوگا۔ وما علینا الالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)