منظر ہیں قیامت کے

July 02, 2024

یکم جولائی کی رات حکومت نے تحفہ دیا، پیٹرول کی قیمت میں سات روپے پینتالیس پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں نو روپے چھپن پیسے اضافہ کیا، اب یہ پینتالیس اور چھپن پیسے کا حساب کون دیگا؟ حکومت لوگوں سے دھوکہ کرتی ہے، لوگ جب پیٹرول ڈلواتے ہیں تو پیٹرول پمپ والے انہیں پچاس پچپن پیسے واپس نہیں کرتے کیونکہ ایک روپے سے چھوٹا سکّہ ہے ہی نہیں، لہٰذا پیسوں کے اس ہیر پھیر سے اربوں روپیہ حکومت یا پھر پیٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہڑپ کر جاتی ہیں۔ یہ ظلم کیوں ہے؟ حکومت راؤنڈ فگر میں قیمت کیوں نہیں بڑھاتی؟ بجلی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، نئے بل لوگوں کیلئے زہر کے تازہ گھونٹ ہیں۔ پتہ نہیں کتنے گھروں کے چراغ گل ہوں؟ کتنی خود کشیاں ہو جائیں، کتنے خود سوزیاں کر لیں اور جو مشکل سے بل ادا کر پائینگے، پتہ نہیں وہ زیور بیچیں گے، دکان پہ ادھار کرینگے یا کسی سے ادھار لیں گے، لاوا پھٹنے والا ہے، قیامت کے مناظر ہیں، یہ خاکسار کئی مہینوں سے لکھ رہا ہے کہ سمجھ جاؤ، سلجھ جاؤ، عوامی غیض و غضب سے بچ جاؤ کیونکہ 80 فیصد پاکستانیوں کی ماہانہ آمدنی 30ہزار سے کم ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ 80فیصد لوگ بیس کروڑ بنتے ہیں۔ 24کروڑ کے ملک میں اگر 20 کروڑ زندگی سے تنگ آ جائیں تو پھر وہ کسی نہ کسی سے انتقام لیں گے، انتقام کی آگ میں کون جھلستا ہے، کون مرتا ہے، لوگ اسکی پروا نہیں کریں گے کیونکہ آگ کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ عالی شان محلات ملکوں کی شان و شوکت ہوتے ہیں مگر اندھی آگ ان محلات کو بھی راکھ کے ڈھیر بنا دیتی ہے۔ لوگوں سے جھوٹ بولا گیا، اقتدار پر براجمان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں نے گلے پھاڑ کر لوگوں سے وعدے کئے کہ تین سو یونٹ تک بجلی فری ہو گی۔ کسی نے کہا پنجاب کے لوگوں کو بل نہیں دینا پڑیں گے۔ کوئی یہ کہتا رہا سندھ کا ہاری بل بھول جائیگا لیکن جب وعدہ نبھانے کا وقت آیا تو اقتدار کی ہوس وعدے بھی نگل گئی، یاد رکھیئے! عہد شکنی کا خمیازہ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں بھگتنا ضرور پڑتا ہے۔ لوگوں پر بجلی گرانے والوں کی حقیقت یہ ہے کہ آئی پی پیز کو مسلط کرنیوالی دونوں سیاسی پارٹیاں اس وقت اقتدار میں ہیں، آئی پی پیز 90کمپنیاں ہیں، ان کمپنیوں نے 32برس میں ہماری معیشت کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ آئی پی پیز کیساتھ جو قاتلانہ معاہدے کئے گئے وہ بھی ان دو سیاسی پارٹیوں نے کئے کیونکہ مفادات تھے۔ آئی پی پیز کے شیئر ہولڈرز میں حکمران خاندانوں کے لوگ شامل ہیں، باقی شیئر ہولڈرز کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آئی پی پیز کے شیئر ہولڈرز نوے فیصد وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاکستان کی تمام شوگر ملز، اسٹیل ملز، سیمنٹ، کھاد، کپڑے اور ایل پی جیز کے لائسنس ہیں۔ معاہدوں کے وقت آئی پی پیز نے بتایا کہ وہ پاکستان کی 125 فیصد بجلی کی ضرورت پوری کرینگے مگر وہ 48فیصد ضرورت پوری کر رہے ہیں اور رقم 125 فیصد کے حساب سے وصول کر رہے ہیں، یہ رقم روپوں میں نہیں بلکہ ڈالرز میں وصول کی جاتی ہے۔ پچھلے پانچ سال میں آئی پی پیز کو چھ ہزار ارب روپے دیئے گئے، ہمارا ملک اب بھی ان کمپنیوں کے انتیس سو ارب کا مقروض ہے۔ آئی پی پیز سے جان کیسے چھڑوائی جا سکتی ہے؟ موجودہ حکمران خاندان تو یہ کام نہیں کر سکیں گے، مفادات کی مجبوریاں ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں جرمن انجینئر فرینک کو K الیکٹرک کا سربراہ بنایا گیا، اسے کہا گیا کہ بجلی چوری پکڑی جائے، اس نے رپورٹ تیار کر کے وفاقی حکومت کو بھجوائی، رپورٹ کے مطابق K الیکٹرک سے سرکاری ادارے پچاس فیصد جبکہ صنعت کار چالیس فیصد بجلی چوری کرتے ہیں اور دس فیصد چوری کچی آبادیوں میں ہوتی ہے۔ فرینک نے لکھا، اگر نوے فیصد چوری کو روک دیا جائے تو دس فیصد کو بجلی فری دی جا سکتی ہے، جاتے جاتے وہ ایک جملہ کہہ گیا، میں نوے فیصد چوری کرنیوالوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہوں مگر حکومت کہتی ہے دس فیصد غریبوں کو پکڑو۔ جس ملک میں حکمرانوں کی سوچ یہ ہو، وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟ مبارک ہو! اب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ماہانہ 12لاکھ کی بجائے 32لاکھ ملا کریں گے۔ یہ بھی مبارک ہو کہ اندرون ملک ہوائی ٹکٹ پر ساڑھے بارہ ہزار روپے اور بیرونی ٹکٹ پر تیس ہزار ٹیکس لگا دیا ہے، ساتھ ہی اراکین اسمبلی اور انکے خاندانوں کیلئے بزنس کلاس کے ٹکٹ پچیس کی بجائے تیس کر دیئے گئے ہیں۔ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر آپ ٹیکس دینگے جبکہ حاضر یا ریٹائرڈ مستثنیٰ ہوگا۔ ظلم کا نظام ہے یہاں گندم اسکینڈل اور دبئی لیکس کا کوئی نہیں پوچھے گا۔ معاشی صورتحال یہ ہے کہ 52فیصد سود کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ لوگ جائیں بھاڑ میں مگر اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ قیامت کے منظر نظر آئیں گے۔ پاکستان میں عوامی انقلاب نے 8فروری کو خاموش دستک دی، اب لوگ تنگ آ کر سڑکوں پر آ جائینگے۔ 76سالہ منظر بدلنے والا ہے۔ بقول فیض

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں