درآمدی اشیا پر ڈیوٹی!

July 03, 2024

پاکستانی معیشت تنزلی کی جس سطح پر پہنچ گئی ہے ،قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے تناظر میں معاشی ماہرین اسے بدحالی کی آخری حد قرار دے رہے ہیں۔پسماندہ ممالک کے رجحانات مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس مسئلے کا حل بین الاقوامی مالیاتی اداروں ،خصوصاً آئی ایم ایف کے قرض پروگراموں کے حصول میں تلاش کیا ہے جس سے نہ صرف ملک کی خود مختاری پر زد پڑ رہی ہےبلکہ مہنگائی تلے دبے عوام بھی بلبلا اٹھے ہیں ۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قرضوں کے حصول کیلئے کئے جانے والے معاہدوں سے اصل فائدہ کرپٹ مافیا کو پہنچے گا جبکہ حکومت کو اقتصادی فیصلے کرنے میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن اور دبائو قبول کرنا ہو گا۔ اگرچہ معاشی بحالی کیلئے قرضے ناگزیر ہیں مگر ان کے دور رس نتائج غریب عوام کے حق میں نہیں۔ آئی ایم ایف کے دبائو میں ہونے والے فیصلوں کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تازہ اعلامیے سے پتہ چلتا ہے، جس کی رو سے 2200درآمدی اشیا پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور 653لگژری آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگادی گئی ہے جو یکم جولائی سے نافذ العمل ہے۔ یہی نہیں، پہلے سےمستثنیٰ اشیا پر بھی 2فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ کاروں، جیپوں اور ہلکی کمرشل گاڑیوں پر سات فیصد ،سبزیوں پر 50سے 55فیصد، تمباکو، ملبوسات، پالتو جانوروں کی خوراک، چمڑے کی مصنوعات پر 50فیصد، پرفیومز، سپرے، گھڑیوں، رنگین چشموں، دودھ کی مصنوعات، شہد، سائیکلوں، کھجوروں اور دیگر پھلوں ،کاسمیٹکس، جیکٹوں، کوٹوں اور جیولری وغیرہ پر 10سے55فیصد نفاذ اس کے علاوہ ہے۔ ان میں بہت سی اشیا نہ صرف ملک میں بننے والی برآمدی مصنوعات میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہیں بلکہ اندرون ملک ان کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ان اشیا پر ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں اضافے سے اندرون ملک مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور برآمدات بھی متاثر ہونگی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس مسئلے پر حکومت کے دفاع کی بجائے شدید اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ برآمد کنندگان پر ٹیکس اور ڈیوٹی آئی ایم ایف کے دبائو پر لگائی گئی ہےجس سے ایف بی آر کے کرپٹ مافیا کو فائدہ پہنچے گا۔ ایسے اقدامات عوام پر بھاری پڑ رہے ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک کرپشن کلچر ختم نہیں ہو گا، معیشت ترقی نہیں کرے گی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ہمہ جہت تگ و دو کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے 48ممتاز کاروباری شخصیات کو وزیراعظم کی منظوری اور ایف بی آر کی سفارش پر گشتی سفیر مقرر کیا ہے جو پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو فروغ دیں گے۔ یہ اقدام ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کی ایک بڑی علامت ہےمگر وفاقی بجٹ میں تاجروں، خوردہ فروشوں اور دیگر کاروباری افراد پر جو ٹیکس لگائے گئے ہیں اور تنخواہ دار طبقے سمیت مختلف شعبوں کے لوگوں کو زیربار کیا گیا ہے ،اس سے پورے ملک میں بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔ بیشک ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس کے حل میں ہر شخص اپنی بساط کی حد تک پورا حصہ لے، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی تلے دبے ہوئے لوگوں پر مزید بوجھ ڈال دیا جائےتو ان کی حالت کیسے بہتر ہوگی اور معیشت کیسے مستحکم ہوگی۔آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں اور دوست ملکوں کے قرضوں کی واپسی ناگزیر امر ہے ،مگر اس عمل میں غریب اور پسماندہ طبقات، تنخواہ دار اور کاروباری لوگوں کی مشکلات بڑھاتےچلے جانا بھی مسئلے کا حل نہیں۔ حکومت کو ان کی بھی فکر ہونی چاہئے۔ لوگ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آچکے ہیں ۔اب ان میں مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔