ہمارے صنعت کار بیرون ملک کیوں جا رہے ہیں ؟

March 23, 2014

پاکستان کے 67سالوں کی اگر معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے توپاکستان کے ابتدائی جمہوری 14سال گزرنے کے بعدصدر ایوب نے اپنے 10سالہ دور میں پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کر کے پاکستان کو صنعتی میدان میں لا کھڑا کیا ۔ ٹیکسٹائل ملیں، شوگر ملیں، سیمنٹ کے کارخانے اور ہیوی کمپلیکس مشینریز، فیکٹریاں الغرض ہر بنیادی ضرورت کی پیداوار شروع کی ۔ اس کے بعد یحییٰ خان کے دور میں ملک دولخت ہو گیا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا جمہوری دور شروع ہوتا ہے۔پی پی پی کواس کے بنیادی نعرے روٹی ،کپڑا اور مکان نے اقتدار تو دلا دیا مگر گزشتہ 14سال کی مضبوط معیشت کو نیشنلائزیشن کی پالیسی قومی معیشت پر کاری ضرب لگا کر اس کو نیچے کی طرف لے گئی۔ تمام بڑی صنعتیں، بینک، انشورنس کمپنیاں قومیا لی گئیں ۔جس نے پاکستانی صنعت کاروں کو راتوں رات کنگال کر دیا تو دوسری طرف قومیائے گئے ادارے تنزلی کی طرف اور ساتھ ساتھ کرپشن کی ابتدا ثابت ہوئے۔ صنعت کاروں نے بیرون ملک اپنا سرمایہ منتقل کر کے صنعت کے میدان سے ہاتھ اٹھا لیا ۔ہمارے تعلیمی اداروں کے قومیانے سے دوسرا بڑا دھچکا ہمارے تعلیمی معیار کو پستی کی طرف لے گیا۔ کسی نے بھٹومرحوم کے دور میں آواز تک بلند نہ کی مگر قوم کو دہرانقصان ہوا ۔پھر فوجی مارشل لا کے دور میں ضیاء الحق مرحوم کی قیادت میسر آئی ۔انہوں نے ابتدا میں تو ڈی نیشنلائزیشن کی طرف توجہ نہ دی مگرجب فیکٹریاں اور مدارس واپس کئے گئے تو صنعت کاروں کو ڈھارس بندھی اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا پیسہ واپس پاکستان لانا شروع کیا ۔نئے نئے تعلیمی ادارے بھی کھلے اور دوبارہ نجی صنعت کاری بھی شروع ہوئی پھر مارشل لا کا دور ہوائی حادثے کا شکار ہوا۔ پھر پی پی پی کی جمہوری حکومت آئی، صنعت کار گھبرائے مگر بے نظیر صاحبہ نے صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے ہمارا سرمایہ ملک میں ہی گردش کرتا رہا۔ البتہ فوجی دور کی نسبت اس جمہوری دور میں کرپشن مزید پروان چڑھی۔ سیاسی افراتفری مرکز اور صوبائی حکومتوں میں محاذ آرائی نے ایک طرف صنعت کاری کو مزید پھلنے پھولنے نہیں دیا تو دوسری طرف صدر اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات لگا کر پی پی پی کی حکومت کو رخصت کر دیا ۔جب دوبارہ الیکشن ہوئے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلے صنعت کار وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو حکومت ملی تو امید تھی کہ صنعت کاری کو فروغ حاصل ہوگا مگر حکومتی سطح پر نہ صنعت کاروں کو تحفظ دیا گیا نہ تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنایا گیا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ جاری رہی۔ پھر صدر اسحاق خان نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی فارغ کر دیا جس کے بعدپی پی پی کادوسرادور اور زیادہ بھیانک ثابت ہوا ۔ اب کہ خود ان کے لائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے ان کا تختہ الٹا اور پی پی پی کا دوسرا دوربھی ختم ہوا پھر الیکشن میں مسلم لیگ نواز شریف کو دوسرا موقع ملاجس میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو حکمرانوں نے خود بھٹو مرحوم کی غلطی دہرائی اور فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کر کے دوبارہ صنعت کار اور حکومت کے اعتماد کو مجروح کیا،ڈالر ایک رات میں 45روپے سے 67روپے تک جا پہنچا معاشی بحران اپنی انتہا کو چھونے لگا اب صنعت کاروں، تاجروں نے اپنا سرمایہ دوبارہ بیرون ممالک بھیجنا شروع کر دیا خصوصیت کے ساتھ UAEتو ابھی اپنی ابتدائی صنعت کاری کے مرحلے میں تھا پاکستانی تاجروں،صنعت کاروں، بنکاروں، ڈاکٹرز، پروفیسرز، انشورنس سے وابستہ افراد دبئی میں سیٹل ہونا شروع ہو گئے اب صنعتی بوم دبئی کی طرف چل دیا۔ ہماری حکومتوں بشمول پرویز مشرف کے فوجی دور میں بھی اس کی طرف توجہ نہ دی گئی 9/11نے تو پاکستانیوں کے جینے پر بھی کاری ضرب لگائی افغانستان جنگ نے ہماری معیشت کو بالکل مفلوج کر دیا ۔پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہرکراچی کو یرغمال بنا کر دہشت گردی ، منشیات، ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ کلچر کو فروغ دیا گیا اور ہمارا بچا کھچا سرمایہ اور سرمایہ دار پاکستان سے مایوس ہو کر آہستہ آہستہ بیرون ممالک منتقل ہونا شروع ہوگیا ۔اب صورتحال یہاں تک جا پہنچی جب پی پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی تو انہوں نے مزاحیہ طور پر کہا ان صنعت کاروں کے جانے سے پاکستانی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ خود ہمارے مقتدر خاندان بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ عام صنعت کار اور تاجر تو کجا ہمارے ڈاکٹر اور ہنر مند افراد میں سے جس کو جب موقع ملتا ہے وہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہا ہے آج صرف کراچی کے 90%صنعت کاروں کا جزوی سرمایہ تو منتقل ہو چکا ہے اب تو ان کے خاندان بھی اس اغوا برائے تاوان سے گھبرا کر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں مگر اس کو روکنے کے معاملے میں حکومت بالکل خاموش ہے ۔لاپتہ افراد کو تلاش کرنے کیلئے تو کمیشن بن رہے ہیں دکھاوے کیلئے آپریشن بھی ہو رہے ہیں ۔معذرت کے ساتھ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب صنعت کاروں، تاجروں کے کنونشن میں کراچی کے حالات سدھارنے کی بات تو کرتے ہیں مگر آج تک انہوں نے ایک رات بھی کراچی میں نہیں گزاری۔ احکامات در احکامات صرف اظہار تشویش سے کام نہیں چلے گا ۔ڈالروں کے گرنے اور چڑھنے پر تو سیاستدان اور حزب اختلاف اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں ۔ڈیڑھ ارب ڈالر کا تو چرچا ہے مگر ارب پتی کھرب پتی صنعت کاروں کا پاکستان سے ناتا توڑنے کا دکھ کسی کو نہیں ہے۔ کیا سیاستدان ایک پوائنٹ ایجنڈا یعنی پہلے پاکستانی معیشت کی بحالی پھر سیاست پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو صنعت کاروں کو ان کے مال و جان کی حفاظت دینے کیلئے فیڈریشن چیمبرز آف کامرس، علاقائی تاجر تنظیموں ، وکلاء برادری، ڈاکٹرزصاحبان سے مل کر مشاورت کے ذریعے معیشت کی بحالی اور سرمایہ کو بیرون ملک روکنے کے مثبت اقدامات کیوں نہیں ہو سکتے ۔بچے کھچے صنعت کار بھی کہیں اس اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی سے گھبرا کر بیرون ملک کی راہ نہ دیکھیں ۔فیصلہ حکومت کو کرنا ہے اسی طرح بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر اپنی ہی صنعتیں بند کرانے کی تیاری ہماری معیشت پر برا اثر ڈالے گی ۔جب تمام سرمایہ اور کاروبار باہر چلا جائے گا تو کیا پھر حکومت کی آنکھیں کھلیں گی؟