پھر سے سرد جنگ کا آغاز

March 29, 2014

مولانا رومی کا قول ہے ،تم پروں کے ساتھ پیدا ہوئے تھے تو پھر اُڑنے کی بجائے رینگنے کیوں لگے۔ پروں والے رینگتے نہیں اور رینگنے والے اڑتے نہیں۔یہ رازمجھ پر منکشف ہوا ۔جیسے رومی کا کہا حتمی نہیں میرا بھی نہیںہو گا کیونکہ انسانی ذہن بہت complicated ہے ۔ ہم سب پروں کے ساتھ پیدا ہوئے تو پھر کس نے کاٹے ۔ محکوم زمین پر رینگ رہے ہیں اور حاکم ان کے سروں پر ۔ اُڑ تو کوئی بھی نہیں رہا۔اس سوال کاجواب آج کے مفکر کوتلاش کرنا ہے ۔اوروں کا حق چھیننے والے ،اپنے حق کا دفاع نہ کرنیوالے دونوں جواب دہ ہیں ،اپنے پروں کیلئے۔
16مارچ کو کریمیا کے شہریوں نے روس سے الحاق کیلئے ریفرنڈم میں 97%کے قریب ووٹ ڈالے ۔قارئین آپ کے ذہن میں سوال ابھراہو گا ،ہر ریفرنڈم کا نتیجہ 97سے99ہی کیوں ہوتا ہے ۔جنر ل مشرف اور جنرل ضیاء کے ریفرنڈم کے نتائج تقریبایہی تھے ۔مصری جنرل السیسی کے حالیہ ریفرنڈم برائے سیکولر آئین کیلئے بھی اتنے ہی لوگوں نے ہا ں کہی اور سابق صدر ڈاکٹر مرسی کے اسلامی آئین کیلئے بھی اتنے ہی لوگوں نے ہاں میں رائے دی ۔ میری رائے ہے ،ایک تو نتائج انجینئرڈہوتے ہیں دوسرے مخالفین بائیکاٹ کرتے ہیں ۔آتے ہی وہ ہیں جنھوں نے ہاں میں ووٹ دینا ہوتا ہے ۔صدر مرسی کے ریفرنڈم میں 35%مصری ووٹ ڈالنے آئے جن میں سے 99%نے ہاں میں ووٹ ڈالا ۔یعنی 66%لوگ مرسی کے ریفرنڈم کے مخالف تھے ۔ریفرنڈم چونکہ یکطرفہ اور صاحب اقتدار کی مرضی سے ہوتے ہیں لہذا نتیجہ بھی انکی مرضی کا ہی ہوتا ہے ۔شاید کریمیا کا بھی یہی المیہ ہو۔پہلے ریاستی اسمبلی سے آزادی کا اعلان کروایا گیا پھر روس سے مدد کی اپیل کروائی ۔ روسی فوجیں جو پہلے ہی تیار کھڑی تھیں کریمیا میں داخل ہو گئیں ۔فوج کے سائے میں ریفرنڈم کا انعقادنتیجہ یہی ہونا تھا۔ مغرب نے روس پرکچھ مالیاتی پابندیا ں عائد کر دی ہیں ۔سخت موئقف کے حامل پیوٹن کے مشیر وںکے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے ۔ایسے روسی سرمایہ داروں جن کے مغربی بنکوں میں اکائونٹس ہیں انہیں پابندیوں سے استثنیٰ رکھا ہے۔مغرب کا موئقف کریمیا کی حد تک تو نرم ہے مگرروس کووارننگ دی جارہی ہے اس سے آگے نہ بڑھنا ورنہ پہلے کی طرح تنہا کر دیے جائو گے۔ملٹی نیشنل یقینا روس میں مزید سرمایہ کاری سے ہچکچائیں گی جس سے روسی معیشت کو دھچکا پہنچنے کا احتمال ہے مگر یورپ کیلئے روس کی سستی گیس سے ہاتھ اٹھانا بھی آسان نہیں ہو گا۔انسان نے آج تک جتنی بھی جنگیں لڑیں ہیں دوسروں کی عورتیں ،اثاثے ، زمین اور مارکٹیں ہتھیانے کے لئے لڑی ہیں ۔ کریمیا کی جنگ کی بنیادبھی معیشت ہے۔سیاسی وجوہات کا دھارا بھی معیشت کے دریا میں ہی جا کر گرتا ہے۔روس کے صدر پیوٹن ولادی میر نے 18مارچ2014کو روس کریمیا الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے اس دن کو تاریخی بنا دیا ۔صدر نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اپنے 47منٹ کے خطاب میں کہا ہم مغرب سے اختلاف نہیں چاہتے مگر اپنے مفادات کا تحفظ ہر صورت کریں گے ۔کچھ مغربی سیاستدانوں نے پابندیاں عائد کرکے ہمارے اندرونی اختلافات کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جسے ہم جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ عمل سمجھتے ہیں ۔مناسب وقت پر اسکا جواب ضرور دیں گے۔ کریمیا اور ہمارے دل ہمیشہ ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔پیوٹن کا اشارہ تاریخ کی طرف تھا ۔اگر میں تاریخ کے اوراق الٹنے بیٹھ جائوں تو کالم کے لئے جگہ کم پڑ جائیگی ۔بس اتنا کہنا چاہوںگا ۔1883 میںروسیوں نے کریمیا ترکوں سے چھین کر روس کا حصہ بنا لیا تھا۔ مگر1954میں خروشیف کے دور اقتدار میں کریمیا کو یو کرائن کا حصہ بنا دیا گیا۔یہ محض انتظامی نوعیت کی تبدیلی تھی، دونوں ریاستیں سوویت یونین کا حصہ تھیں ۔1991میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن کو بھی آزادی مل گئی ۔کریمیا یو کرائن کے ساتھ ایک autonomousریاست کے طور شامل رہا ۔کریمیا مختلف النسل سوسائٹی ہے۔ روسی 58% ،یوکرائنی24%اور تاتاری12%بقیہ دیگر نسلیں ۔نسلی تفاوت اور تفاخرپوری ریجن میں عروج پر ہے ۔بوسینیا،کوسوو،سربیا کی جنگوں میں بھی مذہب سے زیادہ نسلی تفریق نفرت کا باعث تھی ۔کریمیا میں روسیوں نے بہت پہلے روسی النسل اکثریت کو روس سے الحاق کیلئے اکسانا شروع کر دیا تھا ۔روس سے الحاق کے حامیان کا فلسفہ تھا اگر ہمیں کسی اور ریاست کا حصہ بننا ہی ہے تو پھر کیوں ناں بڑی معیشت اور بڑی مارکیٹ کا بنیں۔بے روزگاری سے تنگ لوگ پہلے ہی ماسکو کی طرف ہجرت کر رہے تھے ۔امریکہ سب کا پسندیدہ ملک ہے مگر وہاں جانا آسان نہیں۔تعلیمیافتہ افراد کا رجحان مغرب کی طرف ہے مگرعام لوگوں پر مشتمل اکثریت کا رخ ماسکو ہی ہے ۔یہ کریمیا کی حد تک ہی نہیں یو کرائن ،آرمینیا اور دیگر ریاستوں کی معاشی حالت بھی پتلی ہے ۔ روزگار کیلئے ان ریاستوں کے عام افراد بھی ماسکو شفٹ ہورہے ہیں ۔زیر زمین گیس آئل اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بھرپور زمینوں کے مالک نان شبینہ کے حصول میں مارے مارے پھررہے ہیں کیوں ؟ جبکہ ان سب چیزوں کی مارکیٹ میں مانگ ہے ۔ان قیمتی اثاثہ جات کونکالنے کے لئے سرمائے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے ۔سرمائے کے پہاڑ اور ٹیکنالوجی کاطوفان ملٹی نیشنل ،اور ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہے پھران سب کا استعمال انسانی ضرورتوں کیلئے کیوں نہیں۔انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی جبلّت کو کب انسان لگام ڈال سکے گا ۔انسانی زندگی کو کب قیمتی مانے گا۔مذاہب نے انسانوں کو اخلاق سکھایا مگر مذہب ،اخلاق اور خدمت کے نام پر غلامی کا کاروبار ہمیشہ عروج پر ،کیوں؟1991میںایک گرتی ہوئی دیوار سوویت یونین کی شکست و ریخت کا تاج سی آئی نے اپنے سرپر سجانے کی حماقت کی تھی ۔اگروائٹ ہائوس اس حماقت کو سلجھانے کیلئے روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں ڈویلپمنٹ اور انفراسٹکچرکا کام کر دیتا توآج انسانیت ماسکو سمیت مختلف چوکھٹوں پر دستک دیتی نہ پھرتی۔نسلی تفاوت کے زہر سے ایک بار پھر روس نے کریمیا کو خود میں ضم کر لیا ہے مگر اس کا مقصد بھوکوں کے پیٹ میںکھانا ڈالنا نہیں بھوکوں کے رزق پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔کریمیا میں تیل نہیں مگر گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ماسکو مغرب کو گیس ایکسپورٹ کرنیوالا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ماسکو کے ریزورز کا ابھرتا ہو گراف گیس کا ہی مرہونِ منت ہے۔کریمیا کی گیس ماسکو کے خزانوں میں اضافے کا باعث تو ضرور بنے گی مگر کریمیا کے عوام کو کیا ملیگا کچھ کہانہیں جاسکتا ۔پاکستان کے سینڈک پراجیکٹ کا سونا ،کاپر،تانبہ جس کی مالیّت اربوں ڈالر تھی کہیں اور منتقل ہو گئے مگر ہمارے گھروں کے اندھیرے اور بڑھ گئے۔کریمیا میں سٹیل کے وسیع ذخائر ہیں ،صرف ایک سٹیل مل جو سب سے بڑی ہے کی سالانہ پروڈکشن8ملین ٹن ہے ۔ کریمیا اور یوکرائن جہاز سازی کی بہت بڑی مارکیٹ ہے مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے انجماد کا شکار ،ماسکو اس مارکیٹ پر قابض ہو کر جہاز سازی کا بزنس کریمیاسے کنٹرول کریگا ۔ماسکو کی کنزیومر مارکیٹ بڑھے گی ۔کریمیا کے عوام کو کیا ملیگا۔نہیں معلوم مگر کریمیا کے لیڈرز جنھوں نے روس کے ساتھ انضمام کی تحریک کو لیڈ کیا انکے اکائونٹس ضرور پھلے پھولیں گے۔کریمیا کے لوگوں نے کیا کھویا ،کیا پایا ا سکا فیصلہ وقت کریگا۔مغرب کے بھی وہی مقاصد تھے جو روس کے ہیں۔ روس کی پہل کومغرب نئی سرد جنگ کا نقطہ آغاز قرار دے رہا ہے ۔
سی آئی اے سے سوال ۔گرتی کانپتی سوویت یونین کی دیوار کو دھکا دینے کیلئے ڈپلومیسی ،طاقت کا اندھا استعمال کیا ،جس کے بطن سے القائدہ، 9/11،افغان، عراق جنگیں ،دہشت گردوں سے شکست، جلتا بھنتابر صغیراور مشرقِ وسطیٰ بر آمد ہوا ،جس کے شعلوں کی تپش سے بہر حال مغرب بھی محفوظ نہیں۔سوویت یونین کا خزانہ خالی تھا مگر روس کے پاس 300بلین ڈالرز ،کالے سمندر میں روسی اسلحہ اور عسکریت کی تازہ نمائش،کیا کھویا کیا پایا۔سرد جنگ کا ٓآغازاگر پھر ہو گیا ہے، تو کس کی فتح کس کی شکست، کچھ بھی واضح نہیں۔بلین ڈالرز ضائع مگر ہے کسی میں دم خم جو پوچھے سی آئی اے سے۔