میرا سلطان

April 06, 2014

ٓاج کل ٹی وی پر ایک عرصہ سے ترکی کا ایک ڈرامہ میرا سلطان بہت مقبول ہے اکثر خواتین و حضرات بڑے شوق سے یہ ڈرامہ دیکھتے ہیں۔ اتفاق سے اس ڈرامہ کے کچھ کردار ہمارے ایک سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے ملتے جلتے ہیں۔ پوری طرح تو میں نے بھی یہ ڈرامہ قسط وار نہیں دیکھاالبتہ دوستوں اور گھر کی خواتین کی زبانی تبصرے ضرور سنتا رہتا ہوں۔ ایک مشترکہ خصوصیت ہمارے مرد ِ آہن ایک عرصہ تک پاکستان کے طول و عرض پر حکمرانی کرتے رہے جس طرح اُن کو چیف آف آرمی اسٹاف بے ترتیب جرنیلوں پر پھلانگیں لگا کر بنایا تھا ۔اپنے فوجی رفقاء کے ساتھ مل کر اُسی محسن کا دھڑن تختہ کر دیا اور جب وہ ہوا میں تھے وہیں سے اقتدار سنبھال کر زمین پر اترے اور پھر ایک ایک کر کے اُن تمام جرنیلوں کو جو اُن کو اقتدار میں لائے تھے،فارغ کر کے سکون سے مسلم لیگیوں کی ایک بڑی تعداد جو ہمیشہ سے فصلی بٹیروں کی خصوصیت کی حامل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ناموں کے ساتھ نئی مسلم لیگ ق بنا کر مسند خلافت پر ڈٹے رہے امریکہ کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔ افغانستان کی تمام آفتیں پاکستانی عوام پر مسلط کر دیں۔ اپنے محسن میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو برادر ملک سعودی عرب کی خواہش پر وہاں جلا وطن بھی کر دیا۔ کھل کرمُکّے لہرا لہرا کر ہر ایک سے پنگا لیا اور سرخرو ہوتے گئے۔جائز اور ناجائز طریقوں سے ہر ایک کو دبا کر رکھا۔ جس جس نے ساتھ دیا اُس کو شریک اقتدار رکھا اور جس نے آنکھیں دکھانے کی کوشش کی اس کو بلڈوز کر دیا۔ کچھ ملک چھوڑ گئے اور اُن کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا انتظار کرتے رہے اور کچھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ قدرت کا پیمانہ چھلکا اور یکے بعد دیگرے اُن کے جوش میں کئے گئے فیصلے خود اُن پر وار کر گئے مثلاً این آر او کے ذریعے مسلم لیگ ن کو مزید کونے سے لگانے کی خاطر اُن کی حریف جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو سیاست کے میدان میں اتار دیا تو دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان کو اسٹیل مل کی فروخت میں رکاوٹ ڈالنے کی پاداش میں جبری ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیاگیا۔ قدرت چیف جسٹس پر مہربان تھی کچھ یار لوگوں کا کہنا تھاکہ درِپردہ میاں نوازشریف اور اُن کے حامی وکیلوں کی اشیرباد تھی۔ چیف جسٹس صاحب اس جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف ڈٹ گئے۔ وکلاء اور میڈیا فوجی آمر اور اُن کے حواریوں کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آیا۔ کل تک جہاں دور دور تک مخالفت کا نام و نشان بھی نہیں تھا یکایک ہوا کا رخ بدلا اور میرا سلطان اُس کی گرداب میں آتا چلا گیا۔ اب کیا تھا محترمہ بے نظیر صاحبہ کو میدان سیاست میں دوبارہ جگہ دی اور الیکشن کا بھی اعلان کر دیا ۔بدقسمتی سےآخری دنوں میں بے نظیر صاحبہ کو شہید کر دیا گیا آج تک نہ ان کے قاتلوں کا پتہ چلا نہ کسی کو سزا ہوئی البتہ پی پی پی کے حامیوں کی تعداد اس شہادت کی وجہ سے دوبارہ اکٹھی ہوئی اور پی پی پی کے نئے سربراہ آصف علی زرداری نے اُن کو بڑی صفائی سے گارڈ آف آنر دلوا کر چلتا کر دیا ۔اب میرا سلطان بے چارگی سے پوری دنیا میں گھومتا پھرتا رہا 5سال بعد پھر الیکشن کا موسم آیا کیونکہ پی پی پی کی کارکردگی صفر تھی تو میرے سلطان کو دوبارہ سیاست میں اترنے کا شوق ہوا اور وہ یار دوستوں کے روکنے کے باوجود اپنی وہی پرانی ہٹ دھرمی پر اڑ کر پاکستان کی دوبارہ خدمت کرنے کے شوق میں لوٹ آیا پھر کیا تھا الیکشن کے کاغذات نامنظور ہوئے سو ہوئے مقدمات کی بھرمار اسی چیف جسٹس جن کو جبری ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا تھا سب نے اپنا بدلہ لینا شروع کر دیا۔ نواب اکبر بگٹی مرحوم کے لواحقین بھرپور انعامات کا لالچ دے کر میدان میں اترے اب تو جان کے بھی لالے پڑ گئے۔ایک مقدمہ ختم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے دو چار مقدمات اور آجاتے تھے ۔الیکشن کا نتیجہ تو اور بھی بھیانک ثابت ہوا اور میاں نواز شریف جیسے تیسے کر کے اقتدار کی مسند پر تیسری بار آ بیٹھے تو مقدمات اگرچہ ایک ایک کر کے سمٹ چکے تھے اور ضمانتیں بھی ہو چکیں تھیں کہ مسلم لیگ ن والوں نے نہ جانے کس کی اشیرباد سے غداری کا کیس یعنی آئین توڑنے کا مقدمہ کر دیا نئے سرے سے اس پیچیدہ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ۔میاں صاحب نے ایک طرف سے سیاسی رواداری جو پی پی پی نے ان کے ساتھ برتی تھی پی پی پی کی تمام کرپشن پر پردہ ڈالا ۔خیبر پختونخوا میں عمران کو کھلا راستہ دیا ۔باوجود مولانا فضل الرحمٰن کی توڑ جوڑ کی سیاست کو بھی منہ نہیں لگایا۔ بلوچستان کو بھی وہاں کی اکثریتی پارٹی کے حوالے کر دیا اور ساری توجہ اس غداری مقدمے کی طرف لگا دی۔اسلام آباد آج9ماہ سے مشرف کو عدالت میں پیش کرنے میں لگا ہوا ہے اور میرا سلطان کبھی بیمار ہوتا ہے اور کبھی ان کی والدہ کی بیماری کی خبریں گردش کرتی ہیں تو کبھی ان پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے الغرض ایک طرف سابق جنرل پرویز کیانی کے جانے کے بعد نئے چیف کا بیان ابھی تک کھل کر اس مقدمے کی طرف ہاں یا نہ میں نہیں آیا مگر فوجی کردار فوجی ہی کی ترجمانی کرتا ہے اپنے پیٹی بند بھائی کو سول حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جب کہ غداری کی معاونت میں تو خود اس وقت کے جرنیلوں کا بھی کردار تھا اس سے تو وہ پیچھے نہیں رہ سکتے ۔اگر میرے سلطان کو ہر طرف سے باندھ کر بند گلی میں لا کھڑا کیا گیا تو وہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے تمام ساتھیوں کو بھی بے نقاب کرنے پر مجبور ہو گا اور ہو سکتا ہے جو غلطی مشرف کو ہٹانے کی تھی وہی غلطی ان کو سزادلوانے کی امید میں فوجی مزاحمت کی وجہ بن سکتی ہے۔آج تک سوائے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے کسی کو بھی سزا نہیں ہو سکی ہے آج بھی نہیں ہو گی پھر کیوں قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ کوئی تو میاں صاحب کو سمجھائے آج نہیں تو کل پھر کوئی طیارہ اترے گا اور وہی عمل دہرایا جائے گا جو میاں صاحب کی رہائی کا سبب بنا تھا ۔ بہتر یہی ہے کہ میرے سلطان کو سیاسی بردباری سے جس طرح آصف علی زرداری صاحب نے کیا تھا خیر و خوبی سے جانے دیا جائے اور تمام توجہ صرف ملک کی معیشت کی طرف لگا کر طالبان سے بھی خیر سگالی کا پیغام دے کر عوام کی بہتری کی راہیں ہموار کریں۔