حالات بہت خطرناک ہو رہے ہیں

April 13, 2014

پاکستان کے حالات بہت خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ریاست، حکومت اور اس کے اداروں کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دہشت گرد پورے ملک میں جب اور جہاں چاہتے ہیں، کارروائیاں کر لیتے ہیں انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وفاق پرست جمہوری سیاسی قوتوں کا اثر و نفوذ تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی قوتیں بے بس ہو چکی ہیں۔ وہاں جو نام نہاد جمہوری سیٹ اپ بنایا گیا ہے وہ اپنے جوہر میں قطعی طور پر مصنوعی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس جواز کے تحت اقتدار سونپا گیا ہے کہ طالبان اور دیگر انتہا پسند عناصر اس سیاسی جماعت کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں۔ یہ جواز خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی، قومی جمہوری، روشن خیال اور لبرل سیاسی قوتیں خیبرپختونخوا میں کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔ تحریک انصاف خود بھی اس صورت حال میں انتہا پسند عناصر کے ساتھ ٹکراؤ نہیں کرے گی۔ خیبرپختونخوا میں ریاستی اور حکومتی عمل داری ختم ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی سیاسی قوتوں کا اثر بھی ختم ہو گیا ہے،یہ تو ہے خیبرپختونخوا کی کہانی۔
اب آتے ہیں بلوچستان کی طرف۔ یہاں بھی ریاستی اور حکومتی عمل داری نہیں ہے،یہاں بھی انتخابی نتائج ایک خاص جگہ پر بیٹھ کر بنائے گئے اور یہاں کی صوبائی حکومت کا سیٹ اپ بھی اپنے جوہر میں قطعی طور پر مصنوعی ہے۔ بلوچستان میں بھی وفاقی، قومی جمہوری اور لبرل سیاسی قوتیں بہت زیادہ کمزور ہو چکی ہیں۔ پختون علاقوں میں فرقہ وارانہ انتہا پسند تنظیمیں مضبوط ہیں اور بلوچ علاقوں میں علیحدگی پسند عناصر کا کنٹرول ہے۔ نیشنل پارٹی کو حکومت دینے سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے قوم پرستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے لیکن یہ تاثر پیدا کرنے میں بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ اب چلتے ہیں پنجاب کی طرف۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرح پنجاب میں بھی ایک مصنوعی سیٹ اپ ہے جو انتہا پسندی کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی دانست میں بہتر آپشن کے طور پر قائم کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی طرح یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ اس کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پنجاب میں بھی وفاقی، قومی جمہوری، لبرل اور روشن خیال سیاسی قوتوں کو دستبردار کرایا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں بھی ان قوتوں کو مزید دیوار سے لگانے کی خطرناک اپروچ کی بنیاد پر تشکیل دی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنی پالیسیوں سے ان سیاسی قوتوں کو دھکیل کر بہت تیزی کے ساتھ انتہا پسند اور عسکریت پسند قوتوں کے لیے جگہ بنا رہی ہے حالانکہ یہ بات خود اس کے لیے بھی خطرناک ہے۔ پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے اچانک دوروں اور افسران کے خلاف کارروائی پر مبنی میڈیا مہم کے علاوہ حکومت اور ریاست کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کی موجودگی کے تاثر کے باوجود بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے صورت حال مختلف نہیں ہے۔
جہاں تک سندھ کا مسئلہ ہے، کراچی میں گزشتہ تین عشروں سے خونریزی ہو رہی ہے۔ ہزار ہا کوششوں کے باوجود ریاست اور حکومت اس خونریزی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہیں ۔ سیاسی قوتوں نے بھی اپنے طور پر بہت کوششیں کر لی ہیں لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔کراچی میں بھی وہ تمام سیاسی قوتیں غیر مؤثر ہو چکی ہیں جو اس شہر کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتی تھیں۔ یہ سیاسی قوتیں خود بھی کراچی میں سیاست سے دستبردار ہو چکی ہیں ۔ پاکستان میں کراچی کے سوا سندھ کے وہ علاقے باقی تھے ، جہاں یہ کہا جا سکتا تھا کہ ایک وفاقی، قومی جمہوری اور لبرل سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا سیاسی اثر و رسوخ ہے لیکن اب صورت حال یہاں بھی خراب ہو رہی ہے ۔ اسٹریٹ پاور ان قوم پرست قوتوں کو منتقل ہو رہی ہے ، جو پاکستان کو تسلیم نہیں کرتی ہیں اور پولیٹیکل پاور میں قوم پرستوں اور انتہا پسند مذہبی گروہوں کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی مزاحمت کی سیاست سے نہ صرف احتراز کر رہی ہے بلکہ اس میں مزاحمت کی پہلے والی بات بھی نہیں رہی ہے۔ اس طرح سندھ میں بھی ریاستی اور حکومتی عمل داری کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتوں کی بے بسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان کو جس طرح کی سیاسی قیادت کی ضرورت تھی، اس طرح کی قیادت موجود نہیں ہے۔ اس سے زیادہ المیے کی بات یہ ہے کہ عسکری قیادت بھی اپنے ’’ڈاکٹرائن‘‘ (Doctrine ) پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد وزیراعظم میاں نواز شریف کی اب تک کی پالیسیوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ طالبان کے ساتھ معاملات طے ہو جائیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔طالبان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے اور مذاکرات کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں، جن سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاملات طے ہونے کے باوجود پاکستان میں امن قائم نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے طالبان لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کی حکومت جس عسکریت پسند اور انتہا پسند گروہ کے ساتھ مذاکرات کرے گی، وہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرے گا اور بے شک حکومت ایک ساتھ ایک ہزار گروہوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے، دہشت گردی پھر بھی ہو گی۔ اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح موجودہ حکومت مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے، اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان کی غیر سیاسی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں کمزور ہو گئی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف، ترقی پسند، قومی جمہوری تشخص کی حامل تھیں اور وہ قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں، جنہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حامی تصور کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی غیر سیاسی قوتیں شاید اس بات پر خوش ہوں گی کہ اب وہ اپنی حامی ’’سیاسی قوتوں‘‘ کے ذریعہ معاملات کو چلائیں گی اور مارشل لاء لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتیں اس بات پر خوش ہوں گی کہ ان کے لئے زیادہ جگہ بن رہی ہے لیکن کسی کو بھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی صورت حال بہت خطرناک ہو چکی ہے اگرچہ یہ صورت حال پیدا کرنے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو اس نہج تک پہنچا کر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن انہیں اندازہ نہیں ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ سے بھی نکل رہے ہیں اور ان کے آپس کے تضادات بھی شروع ہو گئے ہیں۔ اب خوش ہونے والوں کے پاس صرف ایک آپشن بچا ہے کہ وہ اپنے اہداف پر نظرثانی کریں۔