آنے والے وقت کا منظر نامہ

April 16, 2014

آج یورپ اور بالخصوص انگلستان کے مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں میں دہشت گردی کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ آنے والے وقت کا منظرنامہ لکھ رہی ہیں۔
برطانیہ کے ہوم سیکرٹری نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ برطانیہ کو ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے اور اس خطرے سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نمٹنا ہو گا۔ انہوں نے منافرت پر اکسانے والے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے یا داخلے سے انکار کیلئے ’’ناقابل قبول رویوں‘‘ کی ایک فہرست جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی پر اکسائیں گے یا اس کی ترغیب دیں گے، جواز پیش کریں گے یا ستائش کریں گے ان کیلئے برطانیہ میں کوئی جگہ نہیں ہے انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی عقیدے کو آگے بڑھانے کیلئے دہشت گردی پر اکسانا، دوسروں کو دہشت گردی کے اقدامات پر ذہنی یا جسمانی طور پر تیار کرنا، دوسروں کو سنگین مجرمانہ سرگرمیوں کیلئے ابھارنا اور کمیونٹیز کے درمیان تصادم اور تشدد پیدا کرنا، دہشت گردی کی تعریف میں مواد لکھنا، اشاعت کرنا، تقسیم کرنا، فروخت کرنا، سرعام تبلیغ یا تقریر کرنا، ویب سائٹ چلانا، اپنی پوزیشن کو مثلاً ٹیچر، ڈاکٹر، کمیونٹی یا یوتھ لیڈر کے طور پر استعمال کرنا قطعی ممنوع قرار دے دیئے گئے ہیں۔ ہوم سیکرٹری کے ان اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے لبرل ڈیمو کریٹک کے ترجمان مارک اوٹن نے کہا کہ ہوم سیکرٹری کو قوانین کا ادراک ہوگیا ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آئندہ انتخاب کے ایک امیدوار نے اپنے حلقے میں کہا ہے اسلامی جہادیوں کو جو مغرب کی جمہوریت اور سیکولر ازم کے خلاف جہاد کرنا چاہتے ہیں ایسے مسلمانوں کو انہوں نے 1930ء کے عشرے کے نازیوں سے تشبیہ دی ہے۔ لندن کے فارن پالیسی سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہادی سوچ گزشتہ صدی میں ابھری اور نازی ازم کی طرح اس کے پیروکاروں کو تشدد کے ذریعے ایک قسم کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ بعض اسلامی مفکروں کی دلیل ہے کہ دنیائے اسلام کی قوت اور مرتبہ میں تنزل اس لئے ہوا کہ انہوں نے ’’صحیح اسلام‘‘ ترک کردیا۔ اسامہ بن لادن سمیت بعض لوگ مسلمانوں کو ’’صاف‘‘ کرنے کیلئے جہاد کی بات کرتے ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے جرمن نازیوں کی طرح وہ کرپٹ آزاد خیال افراد سے دنیا کو پاک صاف کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح 1930ء کے عشرہ میں بعض لوگوں نے نازی ازم کی برائیوں کو غلط سمجھا اور یہ دلیل دی کہ ہٹلر کے محدود سیاسی مطالبات ہیں اسی طرح آج بھی بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جہادی تشدد کے محدود سیاسی مقاصد ہیں۔ بعض کا کہنا تھا کہ اگر ہم عراق سے واپس آ جائیں یا اسرائیل بھاری رعایت دے دے تو جہادیوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ یہ دلیل بھی ویسی ہی بودی اور محدود ہے جتنی یہ دلیل تھی کہ جرمنی کو لائن لینڈ میں دوبارہ فوج رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے نازیوں کی پیش قدمی رک جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1990ء کے عشرے میں مغرب کی طرف سے جہادیوں کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مغرب کے پاس اپنے دفاع کیلئے سکت نہیں ہے اور یہ بات اسپین پر دوبارہ حکمرانی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مرتے دم تک اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی نظریں غرناطہ پر لگی ہوئی تھیں۔
سیاسی رہنما کے بعد ایک مذہبی رہنما نے بھی مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ موصوف اسکاٹ لینڈ میں چرچ کے سب سے سینئر عہدیدار ہیں۔ انہوں نے بنیاد پرست مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ایسے منافق ہیں کہ جو اپنے ہمسایوں کو دشمن گردانتے ہیں اور ان کے ساتھ ریاکاری کا رویہ روا رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ برطانیہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ چرچ آف اسکاٹ لینڈ کے سینئر ترین عہدیدار ڈیوڈ لوسی نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ محمد المساری ہمارے درمیان رہ کر انتہا پسندی کا سبق دیتا ہے۔ یہ انتہا پسند عراق میں ہماری افواج پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ہم نے اس کو اپنے ملک میں بھائیوں کی طرح خوش آمدید کہا یہ لوگ ہمارے ملک اس کی دولت اور اس کے نظام سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دل کے آپریشن کراتے ہیں ان تمام سہولتوں کے باوجود وہ برطانیہ کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ہم ان سے اچھے رویے اور پیار و محبت کی توقعات رکھتے ہیں جو کہ ہمارا حق ہے اس کے برعکس یہ لوگ ہمارے درمیان رہ کر ہمارے خلاف محاذ بناتے ہیں اور دشمنوں جیسا رویہ رکھتے ہیں اگر ہم ان کے دشمن ہیں تو ہمارا ان سے کوئی لین دین اور تعلق نہیں ہونا چاہئے ان لوگوں کو فوراً ملک چھوڑ دینا چاہئے۔
’’ملک چھوڑ دیں‘‘ یہ وہ ردعمل ہے جس کا ہر سیاستدان اظہار کررہا ہے چاہے وہ حکومتی پارٹی میں ہو یا اپوزیشن میں۔ کنزرویٹو پارٹی کے ایک سینئر سیاستدان اور دفاعی امور کے ماہر جیراٹھ ہاروتھ نے بھی اس نعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام مسلمانوں کو (صرف مسلمانوں کو) جو برطانوی طرز زندگی، جمہوریت، سیکولر ازم اور اقتدار کے خلاف ہیں چاہئے کہ اس ملک سے چلے جائیں انہوں نے اخبار اسکاٹس مین کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ جو انتہا پسند لوگ عراق کی جنگ کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں ان کو ہمیں (برطانوی) غدار اور ناقابل اعتبار سمجھنا چاہئے اس طرح کے لوگوں کو اس جمہوری ملک میں نہیں رہنا چاہئے اگر وہ یہاں کی معاشرت کو پسند نہیں کرتے تو اس کا سیدھا سادا حل یہ ہے کہ وہ یہاں سے گیٹ آئوٹ ہوجائیں۔ اس طرح وہ بھی خوش رہیں گے اور ان کے جانے سے ہم بھی خوش رہیں گے۔
سو قارئین! میرے حساب سے لندن کے دہشت گردی سے پیدا ہونے والے ردعمل کیلئے مزید کسی غور و فکر، تشریح اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔