کیا یہ ساعتیں درگزر کی متقاضی نہیں؟

April 27, 2014

تاریخ کا فیصلہ قطعی ہی نہیں، صادق بھی ہوتا ہے، قوموں کی ابتدا اگرچہ اختیار پر ہے لیکن خاتمے کا نوحہ بے عنوان ہوتا ہے، جدید تاریخ کے سب سے بڑا ’’آقا‘‘ فرنگی نے اپنے ملک کو بچانے کیلئے اپنے سامراج سے کنارہ کشی اختیار کی، سرکشی باطل انا کے حُسن کا غرور سہی لیکن آنے والی کل کی سیاہ بختی کا نقارہ بھی تو ہے۔ کروچی، کہتے ہیں ’’یہ کہنا کہ آزادی مر گئی، بالکل ایسا ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ زندگی ختم ہو گئی کیونکہ آزادی کا مخرج زندگی ہے‘‘ ان کے نزدیک آزادی اس قدر ابھرتی ہے جتنا کہ اس کو دبایا جاتا ہے ۔ اس دعوے کی تائید میں کروچی نپولین کی مثال سامنے لاتے ہیں، جنہوں نے متعدد یورپی اقوام کی آزادی کو پامال کیا لیکن بالآخر یہ آزادی بڑے زورشور سے نمودار ہوئی۔ حضرت مولانا روم فرماتے ہیں ’’جو زندگی بے فیض ہے وہ جسم میں ایسی ہے جیسے کہ لکڑی کی تلوار غلاف میں ہوتی ہے، جب تک وہ غلاف میں رہتی ہے تب تک وہ قیمتی سمجھی جاتی ہے لیکن جب باہر نکال لی جاتی ہے تو صرف جلانے کے کام آتی ہے‘‘ اب تاریخ کی فطرت یہ ہے کہ وہ مصنوعی تلواروں کو جلا دیتی ہے کہ تاریخ کا فیصلہ قطعی ہی نہیں، صادق بھی ہوتا ہے۔ ضربِ کلیم میں حضرت اقبال اعلان کرتے ہیں
جو بات حق ہو، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر
اب حضرت کے اس دیس میں حضرت ہی کی اس سنت کے احیا یا پھر تقلید کو اگر ایسا گناہ قرار دیا جائے جس کی سزا قتل سے کم نہ ہو، تو کیا یہ گمان نہیں گزرے گا کہ ’’سرکش‘‘ حضرت کی اس سوچ کے باغی ہیں جس کی روشنی میں آزادی کی دلہن کی نقاب کشائی پر رات سحر میں ڈھل گئی تھی۔ اس ناچیز کے کم عقل نے حامد میر صاحب کو دکھ و درد دینے والے واقعہ سے متعلق ایجنسی کی کارستانی کے مقبول عام فلاسفہ کو تاحال قبول کرنے کی استطاعت نہیں پائی ہے کہ ہمارے ہاں پختونخوا میں ذاتی دشمنیوں میں معلوم دشمن کے بجائے کوئی اور بھی موقع غنیمت جان کر استفادہ سمیٹ لیتا ہے، گو کہ بعد ازاں سہی، قدرت کی خبر گیری ضرور رنگ لے آتی ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ اگر قبائلی دشمنیوں میں وہ استاد قاتل جو زیادہ تر ناخواندہ لیکن عملی تجربے سے مالا مال ہوتے ہیں دو فریقوں کی دشمنی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، تو اس واقعے میں بھی اس حقیر سے نکتہ پر غور کیا جانا چاہئے۔ ہاں حامد میر صاحب اور ان کے قرابت دار جس نتیجے پر پہنچتے ہوں وہ مقدم کہ ایف آئی آر مضروب کا استحقاق ہے، پھر پشتو کہاوت ہے’’نابینا دیدہ وروں سے زیادہ اپنے گھر کو جانتا ہے‘‘ بڑے باخبر، پہنچ اور قوت والوں کی رائے صائب، البتہ ہم جیسے کج فہم کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی اتنا تو ضرور سمجھتے ہیں کہ ملزم ایسے پاکستانی ہیں جن کے ہاتھ لمبے، دل سنگ و خشت اور سوچ سرکشی کی ہے، جو سانحہ مشرقی پاکستان اور پھر بچے کھچے پاکستان میں بربریت کے لاتعداد خونی مناظر دیکھنے کے بعد بھی جن کے دل میں رحم کا مادہ سر نہیں اٹھا سکا اور جو بقول حبیب جالب
اب بھی شرمندہ نہیں ہیں لوگ اپنی سوچ پر
شہر اجڑے بستیاں کتنی ہی ویراں ہو گئیں
میدانِ صحافت کے ہم جیسے بارہویں نمبر کے کھلاڑی پاکستانیوں کے دل غم زدہ کرنے والے اس واقعہ پر کس کھاتے میں رائے زنی کر پائیں گے !! لیکن پھر بھی اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ دشمن نہ تو کوئی ادارہ ہے نہ تنظیم بلکہ وہ سوچ ہے جس کا خمیر ہی عدم برداشت سے عبارت ہے، مزید یہ کہ اس سوچ کا ہدف ’’دائیاں بائیاں بازو‘‘ نہیں، ہر وہ بازو ہے جو اس سوچ کو للکارنے کی جرأت رندانہ رکھتا ہے حضرت اقبال کیا خوب اس کی ترجمانی فرماتے ہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
ایک اور موقع پر یاد دلاتے ہیں
یہ اگہی میری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
حامد میر پر گزشتہ سے پیوستہ چند روز میں جتنی تحریریں مختلف اذہان سے قلم و قرطاس کو منتقل ہوئیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے علاوہ شاید ہی کسی واقعہ کے فوری ردعمل میں اتنے الفاظ کبھی رقص کرتے نظر آئے ہوں، ان میں ناقدانہ ’’شہ پارے‘‘ بھی شامل ہیں، اس سے اس روایت کا رد بھی ہوا ہے کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں کہ مرنے کے بعد ہی کسی کی یاد ہمارے دل کے نہاں خانے میں سر اٹھاتی ہے۔ ربِ کریم ہمارے بھائی کو عمرِ دراز دے (امین) ایک اور بات یہ کہ مدح اور طنزو تشنیع کی جملہ نگارشات میں جس امر پر اجماع ہے وہ یہ کہ حامد صاحب لگی لپٹی نہیں جانتے، ناقدوں کا انداز اپنی جگہ، لیکن وہ بین السطور ان کی بے باکی سے خائف ضرور نظر آتے ہیں۔ اب اس کا کیا جواب کہ وسوسوں کو تو ریکارڈ میں لے آئے لیکن خوف پھر بھی نہیں، حامد میر کے پیر و مرشد اور میرے بابا خوشحال خان خٹک کے’’ حامد‘‘ حضرت اقبال پھر دل کے تار چھیڑتے ہیں۔
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
پیشہ ورانہ رقابت اپنی جگہ لیکن اربابِ صحافت اس واقعہ پر رائے کو اگر حساب برابر کرنے سے زیادہ اپنے اقدار کے سانچے میں تولتے تو شاید وہ غلاظت جو اب تک صحافتی اداروں کو تعفن زدہ کئے ہوئی تھی، بیچ چوراہے پر قوم کے قلب و نظر کو مکدر بنانے کا سبب نہ بن پاتی، یہ کیا کہ موٹی موٹی عقلیں اس خاطر بھی بروئے کار نہ لائی گئیں کہ حامد میر تو ایک طرف، اس بے قصور خاندان پر ان زہر آلود حملوں کا اثر کتنا شدید ہو گا جن کا حامد میر یا دیگراں سے ’’مخاصمت‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں وہ سچ کی راہ میں ان کیلئے دعا گو ہیں لیکن دیگر رقابتیں جو اگر ہوں تو بھی تو ان سے معصوم عائشہ میر کا کیا لینا دینا، جنہیں دشنام طرازوں نے دکھی کر دیا ہے، وہ اپنے ’’بزرگوں‘‘ سے یوں شکوہ مند ہیں ’’میں ابو کی طرح نہیں بول سکتی لیکن سوشل میڈیا پر میں نے کچھ الزامات دیکھے، جن سے مجھے وہی تکلیف محسوس ہوئی جو ابو کو گولیاں لگنے کے بعد ہوئی ہو گی‘‘۔ حیف !!ہم اپنے جھگڑوں میں بچوں کو بھی گھسیٹ لائے۔ اکابرین نے سچ کہا ہے کہ تیر سے حرف کا زخم شدید تر اور نہ مندمل ہونے والا، معصوم بچی پر سفاک حملہ آوروں سے بھی زیادہ ظلم انہوں نے کیا جنہوں نے ’’بدلے‘‘ انتقام کیلئے غلط موقع کا انتخاب کیا۔ بہرکیف حامد بھائی کو بڑی و متنوع آزمائش درپیش ہے، کیا یہ ساعتیں درگزر کی متقاضی نہیں!؟ ہمیں یہ تسلیم کہ بہ زبانِ فیض یہ اعلان آپ کا اعزاز ٹھہرا
ہم نے ان پر کیا حرفِ حق سنگ زن
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی
لیکن کیا بڑائی معاف کرنے میں نہیں ہے !! اور وہ بھی ایک بڑے مقصد کیلئے، فتنے سے بچنے کیلئے۔ ہاں راہ حق کا سفر!!یہ جاری رہنا چاہئے کہ رکنے سے منزل چشمانِ اسرار سے اوجھل ہو جائے گی حملہ آوروں کیلئے اپ کی طرف سے اللہ ہی کافی ہے۔ سزا و جزا کا فلسفہ اپنی جگہ لیکن شاید اس کیلئے مزید انتظار درکار ہے کہ ابھی شعور و ادراک کی دنیا کو آباد ہوناہے !! جہاں تک بہتان طراز ہیں تو انہیں بھی نو لفٹ۔ ملاخط فرمائیں رحمان بابا بحرِ بے کراں سے ظروف کا کیا ظرفِ آفناب اُٹھا لائے ہیں ،اپنے کلاسیکل شعر میں فرماتے ہیں ’’کسی کا طرزِ گفتار ہتک آمیز اور کسی کا دل آویز ہے۔ اے رحمان تجھے کم ظرف،کم ظرف اور صاحبِ ظرف اعلیٰ ظرف سمجھتے ہیں‘‘۔