آزاد کشمیر میں انتخابی کامیابی سے نواز شریف کو نیا عزم و حوصلہ ملا

July 23, 2016

اسلام آباد (رپورٹ : طارق بٹ) آزاد جموں و کشمیر میں سوچی سمجھی سازشوں کی فضا میں مسلم لیگ (ن) کی جمعرات کو عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی نے یقیناً وزیراعظم نواز شریف کو نئے عزم و حوصلے کے ساتھ سازشیوں سے نمٹنے کے لئے بھرپور اعتماد ملا ہوگا۔ انتخابی نتیجہ سیاست دانوں کا روپ دھارے سازشیوں کو عوامی طاقت کا واضح جواب ہے۔ یہ ان ڈھول پیٹنے والوں کے لئے بھی بڑا دھچکا ہے جو سمجھتے ہیں وزیراعظم نواز شریف اپنی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے غیر مقبول ہوگئے ہیں شاید ن لیگ کو بھی اپنی اتنی بھرپور کامیابی کی توقع نہ تھی۔وزیر اعظم نواز شریف اپنے علاج اور بائی پاس آپریشن کے لئے تقریباَ ڈیڑھ ماہ لندن میں مقیم رہے ،اس دوران ان کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈا ہو تا رہا۔میڈیا کے ایک حصے کے ذریعہ عمران خان کا پروپیگنڈا ناکام ثابت ہوا، دھرنے سے لے کر اب تک میڈیا کے ایک حصے پر سنگین نوعیت کے الزامات لگتے رہے تاہم آزاد کشمیر کے انٹخابی نتائج نے ان الزامات کو غلط ثابت کر دیا۔اب وزیراعظم نے دو ماہ بعد وفاقی دارالحکومت پہنچ کر اپنی منصبی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ آزاد کشمیر میں انتخابی کامیابی نے ان میں خوشی کی لہردوڑادی۔ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں ملنے والا عوامی مینڈیٹ کوئی پیمانہ ہے تو عام تاثر یہی ہے کہ اگر ان کی حکومت کو درمیان میں نہ چھیڑا گیا تو نواز شریف پاکستان میں 2018ء کے عام انتخابات میں اپنے حریفوں کو کہیں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج میں اگر سیکھنا چاہیں تو مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے کئی سبق ہیں۔ ایک تو یہ ثابت ہوگیا کہ محض بے بنیاد الزامات عائد کرنے اور ہوا میں اسکینڈلز اچھالنے سے ووٹرز متاثر نہیں ہوتے۔ دوسرے سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف کو اپنے حر یفوں پر بے سروپا الزامات عائد کرنے کی حکمت عملی خود اپنے فائدے میں تبدیل کرنا ہوگی۔ انتخابی نتائج ثابت کرتے ہیں کہ عوام ایسے الزامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ تیسرے نجی ٹی وی چینلز کی جانب سے مخصوص سیاست دا نو ں کو غیر معمولی کوریج نے ووٹرز پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کے براہ راست نشریاتی خطا با ت مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے انہیں وزیراطلاعات پرویز رشید، وزیراعظم کے معاون خصوصی آصف سعید کرما نی اور وزیر امور کشمیر برجیس طاہر پر مشتمل مسلم لیگ (ن) کی تین رکنی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ نشریاتی وقت ملا۔ چوتھے اگر انتخابی تقاریر کا محور پاکستان کی سیاست اور ان میں مقامی مسائل کا کوئی حوا لہ نہ ہو تو ایسے سیاست دانوں کے لئے انتخابی مہم غیر موثر بن جاتی ہے۔ عمران خان اور بلاول نے یہی حکمت عملی اپنائی۔ پانچویں یہ ثابت ہوا کہ سنگین الزامات سے مرصع ہنگامہ خیز انتخابی مہم ووٹرز کو اپنے حق میں باور نہیں کراسکتی۔ بلاول کا پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم میں زور اس بات پر ہی رہا کہ نو از شریف اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے دوست ہیں انہیں مسئلہ کشمیر سے زیادہ اپنے کاروبار کی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان میں 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور عوام نے پیپلزپارٹی کی حکومت کومسترد کیا۔ وہ سوائے سندھ کے پورے ملک میں ناپید ہوگئی۔ اب آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج اسی کا تسلسل ہیں پیپلزپارٹی کے لئے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود اس کے و زیراعظم کی بیٹی انتخاب ہار گئی۔ تحریک انصاف کے لئے زیادہ شرمناک شکست یہ رہی کہ آزاد کشمیر میں پارٹی سربراہ بیرسٹر سلطان محمود میرپور میں ن لیگ کے نووارد امیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے جہاں سے وہ اور ان کے والد مرحوم ہمیشہ ناقابل شکست رہےتھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو آزاد کشمیر میں کوئی نشست نہیں ملی جو دو نشستیں حاصل ہوئیں وہ لاہور اور خیبرپختونخوا کے کشمیری مہاجرین کی ہیں۔