نئی عدلیہ اور طاقت کا نیا توازن

July 25, 2016

ــ’’کیا آزادی اظہار کا یہ مطلب ہے کہ کسی بھی اینکر کو لائسنس دے دیا جائے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج اور اہلِ خانہ کی تضحیک کرے۔اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، عدلیہ کو بدنام کرنے کا اختیار کسی کو نہیں، اگر پارلیمنٹ ایسا نہیں کر سکتی تو ان ٹی وی چینلز کو کس قانون کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کرنے کی اجازت ہے‘‘، حال ہی میں سپریم کورٹ سے منسوب یہ ریمارکس روزنامہ جنگ میں چھپے ہیں جن میں ایک نہایت اہم مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ وکلا تحریک کے نتیجے میں جنم لینے والی نئی عدلیہ کے خدوخال واضح ہو رہے ہیں۔ اسی لئے مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کے نئی عدلیہ کے بارے میں طرز ِ عمل کے حوالے سے اوپر نیچے کئی ایک واقعات سامنے آئے ہیں۔2013کے انتخابات کے بعد عمران خان نے عدلیہ کے بارے میں شرمناک کا لفظ استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ ایم کیو ایم کے ایک بیان پر بھی توہین عدالت کی کارروائی کر چکی تھی۔ یہ معاملہ نئی عدلیہ اور مقبول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوا۔پھر ریڈ زون میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے بارے میں نازیبا بینرز آویزاں کرنے کا معاملہ سامنے آیا ، اس معاملے میں نئی عدلیہ اور انتظامیہ کے کچھ حصے آمنے سامنے نظر آئے۔
حال ہی میں سی ڈی اے جو ایک انتظامی ادارہ ہے ،کے کسی افسر کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کے بارے میں شکایت بھی کچھ اخبار وں میں چھپی جو شاید سپریم جوڈیشل کونسل میں کی گئی تھی۔
عدالتوں کی معمول کی کارروائی میں ججوں اور وکلا کی نوک جھونک بھی کئی دفعہ سنجیدہ صورتحال اختیار کر گئی۔ ماتحت عدلیہ میں تو آئے روز، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے، تالہ بندی کی نوبت آتی رہتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے چند سال پہلے بابر اعوان کا وکالت کالائسنس معطل کیا ، اور حال ہی میں بیرسٹر علی ظفر کا لائسنس معطل کیا گیا۔بنچ اور بار میںبیرسٹر علی ظفر کے لائسنس کی معطلی پر تفاوت کا واضح اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ چند روز بعدہونے والے انتخابات میں وکلا نے انہیں سپریم کورٹ بار کا صدر منتخب کر لیا۔اسی طرح ایک طرف لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس نے وکلا کے خلاف انضباطی کارروائی کے فورم کی ضرورت کا اشارہ دیا ہے تو دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے کئی جج صاحبان کے خلاف وکلا کی درخواستیں سپریم جوڈیشل کونسل میں پڑی ہیں۔ایک اور واقعے میں ہائی کورٹ کے حاضر جج اور ہائیکورٹ کی ایک سابق جج جو خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کی وفاقی محتسب ہیں ، کے درمیان چلنے والا تنازع بھی ایک ناخوشگوار رُخ اختیار کر گیاجس میں دونوں نے ایک دوسرے کیخلاف توہین کی کارروائی شروع کر دی اور شاید نوبت ایک دوسرے کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے تک پہنچ گئی۔اس تنازع کے حقائق اور میرٹ کو اگر ایک طرف رکھ کر بات کی جائے تو معاملہ یہاں بھی عدلیہ کے حوالے سے اداروں کی حدود کی ایک متوازن اور مناسب حد بندی سے علاقہ رکھتا ہے۔
جہاں ایک طرف نئی عدلیہ اور دیگر اداروں کے درمیان یہ معاملات چل رہے ہیں وہیں عدلیہ کے اندر بھی تبدیلی کا ایک عمل نظر آتا ہے۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو عدلیہ انتظامیہ کا ایک حصہ بلکہ ایک ماتحت ادارہ تھی جو انگریز سامراج نے اپنی مخصوص ضروریات کے مد نظر بنائی تھی۔ لیکن آزادی کے بعد پاکستانی عوام کی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کی منزل پہلے ہی طے ہو چکی ہے۔ ا نتظامیہ سے علیحدگی کے بعد عدلیہ کو صحیح معنوں میں آزاد اور خود مختار بنانے کیلئے کوششیں شروع ہوئیں جنکی وجہ سےاعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی برطرفی و گرفتاری کا بحران پیدا ہوا اور پھر وکلا تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں اس نئی عدلیہ کا جنم ہوا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نئی عدلیہ بہت حد تک آزاد اور خودمختار ہو چکی ہے۔ لیکن آزادی اور خودمختاری کے اس سفر میں دیگر اداروں کو شکایت ہوئی کہ عدلیہ دیگر اداروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کر رہی ہے۔ سوموٹو کے اختیارا ت نے نئی بحث کو جنم دیا۔اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی تعیناتی میں فرد واحد یعنی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی مکمل صوابدیداورجوڈیشل کمیشن کے اختیارات کو پارلیمانی کمیشن پرویٹو کادرجہ دینے پر اعتراضات سامنے آنے لگے۔عدلیہ کے ججوں کے خلاف شکایت کے واحد آئینی فورم سپریم جوڈیشل کمیشن کی عدم فعالیت کے طعنے کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی۔ نتیجتاً، عدلیہ نے ان تینوں معاملات میں بہتری لانے کی کوششیں شروع کی جو سب کے سامنے ہیں۔سو موٹو کے اختیارات کے استعمال میں احتیاط اور ضبط کا مظاہرہ ہونے لگا۔بلاشبہ ان اختیارات کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن اہم معاملات میں انکا متوازن استعمال کتنی بہتری لا سکتا ہے اسکی ایک مثال سپریم کورٹ کا مارگلہ کی پہاڑیو ں کی غیر قانونی کرشنگ اور بلاسٹنگ رکوانے کا معاملہ ہے ۔ چندسیاستدانوں اوربااثر لوگوںکے ملوث ہونے اور انتظامیہ کی انکے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے اس طرح کی سنگین غیر قانونی سرگرمیاں کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں لیکن میڈیا کے توجہ دلانے اور سو موٹو کے اختیارات کے استعمال نے انہیں آناًفاناً رکوا دیا ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام کو شفاف بنانے کیلئے سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک آئینی درخواست ان ریمارکس کے ساتھ سماعت کیلئے منظور کی ہے کہ یہ ایک اہم آئینی مسئلہ ہے ،جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی فرد واحد یعنی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی صوابدیدکی بجائے مقابلے کے امتحان کے ذریعے تعیناتی کا نظام اپنایا جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کے معاملے میں بھی پیش رفت سامنے آئی ہے اور کچھ جج صاحبان کے خلاف شکایات پر کارروائی زیر التوا ہے۔ اس کارروائی کے خفیہ ہونے کی وجہ سے اسکی تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں لیکن قانونی حلقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو نئی عدلیہ کی دیگر اداروں کے ساتھ کشمکش کا معاملہ براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل کے غیر فعال ہونے سے جڑا ہوا ہے ۔سپریم کورٹ کو اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہئے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جو مکمل طور پراعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان پر مشتمل ہے، بھی غیر فعال رہے یا اسکے بارے میں تاثر یہ ہو کہ وہ غیر فعال ہے ،پارلیمنٹ میں بھی بات نہ ہو،،میڈیا کی بھی زبا ن بندی ہو؛سوشل میڈیا جیسے عوامی فورمز پر بات کرنے پر بھی پابندی ہو،انتظامیہ توپہلے ہی بات کر نے کی جرات نہیں کرتی تو پھر اتنا یک رُخا اور غیر متوازن نظام کیسے چلے گا؟یہ بات امکانات کی دنیا سے وابستہ ہے کہ بعض اوقات افراد یا اداروں کو کسی معزز جج کے طرزِ عمل یا رویے کے بارے میں جینوئن شکایت پیدا ہو سکتی ہے، اس طرح کی صورتحال کے پیشِ نظر افراد یا اداروں کے پاس کسی موثر فورم کی موجودگی یقینی بنانا از حد ضروری ہے۔یہ بات بھی طے ہونا باقی ہے کہ کس حد تک اور کس پیرائے میں معزز جج صاحبان کے رویوں یا فیصلوں پر میڈیا میں تنقید ہو سکتی ہے اور کس حد تک ایسی تنقید عدلیہ کے پورے ادارے پر تنقید تصور ہو گی ،یا نہیں ہو گی۔یہ بھی میںطے ہونا چاہئے کہ جج صاحبان کے طرزعمل پر تنقید نہ کرنے والی پابندی صرف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں تک محدود رہنی چاہئے یا پھر ماتحت عدلیہ، خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز کے ججز اور ممبران کو بھی مناسب تحفظ دیا جانا چاہئے۔
یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے وہ دراصل نئی عدلیہ اور ریاست کے دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کے نئے توازن (balance of power)کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے ۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اداروں کے ارتقا اور انکے درمیان توازن کے حصول کیلئے بہت وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔پاکستان کے ریاستی نظام کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کیلئے ضروری ہے کہ تمام ادارے نہ صرف ایک دوسرے کے تقدس کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے دائرہ کار کی خلاف ورزی سے اجتناب کریں بلکہ ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے میں بھی حتی الوسع ضبط کا مظاہرہ کریں۔