میاں صاحب اب یہ قانون سازی کر ہی دیں

May 13, 2014

گزشتہ ہفتے پوری دنیا میں تھیلیسمیاکا عالمی دن منایا گیا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے مختلف علاقوںمیں تقریبات منعقد ہوئیں۔ البتہ لاہور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی صدارت میں تو بہت بڑی تقریب ہوئی۔
اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ جس طرح شہباز شریف نے اس موذی مرض کی پیچیدگیوں کا احساس کرتے ہوئے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے حکومتی عزم کا اعادہ کیا وہ لائق تحسین ہے ۔کیونکہ تھیلیسمیاایک ایسا موذی مرض ہے جس سے آج پاکستان کے ہزاروں خاندان متاثر ہیں سب سے زیادہ دکھ اور اذیت ناک بات یہ ہے کہ ایک تو اس کا علاج بہت مہنگا ہے ۔دوسرے اس مرض میں مبتلا بچوں کو ہفتے یا پندرہ روز کے بعد خون کے اجزائے لگوانے کیلئے لازمی طور پر اسپتال میں جانا پڑتا ہے جسکے اخراجات علیحدہ اور والدین کو تین سے چار گھنٹے بچے کے پاس رہنا پڑتا ہے پھر اکثر اوقات سرکاری اسپتالوں کے بچوں کے وارڈز میں بیڈ بھی نہیں ملتا اور پورے ملک میں اس کے سنٹرز کی شدید کمی ہے ۔ یہ تو بھلا ہو سر گنگا رام کا جنہوں نے مول چند اسپتال (بچوں کا ایک اسپتال) سرگنگا رام اسپتال کی حدود میں بنایا تھا جہاں پر آج تھیلیسمیاکے بچوں کو خون، اور خون کے اجزائے لگائے جاتے ہیںاور اس سینٹرکی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں بغیر کسی تنخواہ اور معاوضہ کے اس سینٹر کو صرف خدمت خلق کے جذبے کے تحت صرف دو کمروں میں چلارہی ہیں جس پروزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ناصرف انہیں خراج تحسین پیش کیا بلکہ اس سینٹر کو توسیع دینے کیلئے خصوصی اقدامات بھی کرنے کا حکم دیا یہ سینٹر جو صرف دوکمروں میں چار افراد کے اسٹاف کے ذریعے پنجاب کے 18اضلا ع کے سیکڑوں بچوں کو یہ سہولت اور ان کی سکریننگ کر رہا ہے اگر جذبے جوان ہوں تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار بچے تھیلیسمیا (THALASSEMIA)کے مہلک مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں ۔دوسری طرف پورے ملک میں 80لاکھ افراد اس کے کیریئر ہیں اس بیماری میں مبتلا افراد میں یہ مخصوص جین موجود ہوتے ہیں جو بیماری یا خون میں خرابی پیدا کرتے ہیں جن افراد میں یہ جین ہو بھی تو وہ صحت مند زندگی بسر کر سکتے ہیں۔مگر جب یہ افراد کسی ایسے فرد سے شادی کرتے ہیں جس کے جسم میں بھی یہ خرابی پیدا کرنے والا جین پہلے سے موجود ہو تو پھر دونوں ماں باپ جس اولاد کو جنم دیں گے وہ تھیلیسمیاکا بچہ ہو گا۔ جس کو ساری عمر خون کے فولاد کے اجزا لگوانے پڑیں گے۔ پھر سب سے دکھ والی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مناسب سہولیات، علاج کے لئے بہتر سنٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ دوسرے غریب والدین ہر ماہ 15 سے 30 ہزار روپے ایسے بچوں کے علاج پر خرچ نہیں کر سکتے تو ان افراد کی اکثریت پچیس تیس سال کی عمر تک پہنچنے تک اللہ کو پیاری ہو جاتی ہے بلکہ بعض تو صرف 16/17سال کی عمر میں مر جاتی ہے ۔ ’’امریکہ بہادر ‘‘ کے دیس میں تو اس مرض میں مبتلا افراد تو پچاس سال سے بھی زیادہ عمر پا جاتے ہیں ’’امریکہ بہادر ‘‘ ہمیں ڈالرز تو دے دیتا ہے مگر علاج کے لئے جدید ترین اور مہنگی ترین مشینیں یا بہترین ماہرین نہیں دیتا کیونکہ اس کا مفاد اسی میں ہے کہ ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان کے لوگ بیمار اور لاغر ہی رہیں اور وہ انہیں خیرات میں کچھ ڈالرز، کچھ اسلحہ کچھ اور چھوٹی موٹی چیزیں دیتا رہے۔ اور ہم عمر بھر امریکہ کی غلامی میں رہیں اگر ’’امریکہ بہادر‘‘ کو پاکستانی عوام سے اتنا ہی پیار ہے تو پھر وہ کیوں نہیں صحت کے حوالے سے ہر جدید مشینیں، بہترین ادویات اور ماہرین ہمیں دیتا ۔
یہ دسمبر 2012ء کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم پی اے شیخ اعجاز نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کرائی کہ شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے خون کی سکریننگ ہونی چاہئے تاکہ اگر ان میں تھیلیسمیا کے مرض کا جین موجود ہے وہ آپس میں شادی نہ کریں خصوصاً کزن میرج سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے دونوں خاندانوں میں جو بھی بیماریاں موروثی ہیں وہ بچوں میں لازمی طور پر منتقل ہو جائیں گی یہ ایک اچھا بل تھا جس کو تاحال قانون کی شکل نہ دی گئی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بالکل درست کہا کہ وہ اس سلسلے میں علما حق اور وقت سے بات کریں گے علما سُو سے نہیں۔
آخر ہمارے علماء کرام کیوں نہیں شادی سے قبل خون کی سکریننگ کے اس بل کی حمایت کرتے؟ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک میں اس ضمن میں قانون سازی ہو چکی ہے قبرص اور یونان میں تھیلیسمیاکے جین رکھنے والے دو افراد یعنی مرد اور عورت آپس میں شادی نہیں کر سکتے یہ قانون موجود ہے اس بلڈ سکریننگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ نا صرف تھیلیسمیا کے جین بلکہ ہیپاٹائٹس بی /سی ،ایک ہارمون LEPTIN ایڈز اور کئی دیگر بیماریوں کا پتہ بھی چل جائے گا۔اور اس طرح پاکستان جیسے غریب ممالک کے لوگ جو کہ علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے وہ مزید غربت سے بچ جائیں گے اور ان کے بچے مرنے سے بچ جائیںگے۔ ذرہ دیر کو سوچیں جو بچے لمحہ لمحہ موت کے قریب جا رہے ہوں ان کے خاندانوں پر کیا گزر رہی ہو گی ؟
مظفر گڑھ میں طیب اردگان ہسپتال ترکی کی حکومت نے قائم کرکے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو علاج کی بہترین سہولیات دی ہیں چنانچہ ہم تو خادم پنجاب سے کہیں گے کہ وہ پاکستان کے جن علاقوں میں تھیلیسمیاکا مرض زیادہ ہے وہاں پر ترک حکومت کے تعاون سے جدید تھیلیسمیا کے سنٹرز بنائیں۔پاکستان میں کے پی کے اور سندھ میں یہ بیماری بہت زیادہ ہے ۔ کیونکہ وہاں پر کزن میرج کا رواج بہت زیادہ ہے اگر نکاح سے قبل /منگنی سے قبل لڑکا اور لڑکی دونوں کا بلڈ سکریننگ ہو جائے تو پیدا ہونے والی اولاد کئی طرح کی پیچیدگیوں اور بیماریوں سے بچ سکتی ہے ۔
نئی دہلی کے گرو تیغ بہادر ہسپتال میں تھیلیسمیا کے ایک ماہر ڈاکٹر سنیل گمبر کے مطابق بھارت میں ہر سال دس سے بیس ہزار بچے تھیلیسمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں ایسے بچوں کا جسم ہیموگلوبین پیدا نہیں کرتا اگر یہ بچے ڈینگی یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو ان کی زندگی کو شدید ترین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بچوں کو تھیلیسمیا کے مرض سے بچانے کے لئے وہ حکومت کے تمام وسائل استعمال کریں گے اور پورے صوبے میں اس حوالے سے سہولیات فراہم کریں گے یہ بڑی خوش آئند بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھیلیسمیا کے سنٹروں کی تعداد بڑھائی جائے ۔دوسرے ملک کے جن جن سرکاری ہسپتالوں میں بچوں کے وارڈز ہیں وہاں پر خون کے اجزائے لگوانے کیلئے مزید سہولیات فراہم کی جائیں ہمارے ہاں منوبھائی کی سربراہی میں سندس فائونڈیشن بھی تھیلیسمیا کے مریضوں کے لئے بہت کام کر رہی ہے اور ان کے صدر یاسین خان کو جب بھی کسی مریض کے لئے خون کی فراہمی کے لئے کہا گیا انہوں نے ہمیشہ خون فراہم کیا حکومت کو ایسے اداروں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔
سائپرس میں 16فیصد، پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، ملائیشیا اور چین میں تین سے 8فیصد بچے اس موذی بیماری میں مبتلا ہیں دنیا بھر میں 80ملین کے قریب افراد تھیلیسمیا کے مرض میں مبتلا ہیں علما وقت خدارا اس مسئلے پر سوچیں اور یہ قانون پورے ملک میں نافذ کر دیں بل تو پاس ہو چکا ہے اب اس کو قانون سازی کے عمل میں لائیں۔